قائدین کے قول وفعل میں تضاد ہی ہمار اا ہم ترین قومی مسئلہ بھی ہے - App Urdu News | Urdu News | Latest Urdu News

بریکنگ نیوز

قائدین کے قول وفعل میں تضاد ہی ہمار اا ہم ترین قومی مسئلہ بھی ہے




 قائدین کے قول وفعل میں تضاد ہی ہمار اا ہم ترین قومی مسئلہ بھی ہے 


وزیراعظم آف پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ اگر ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ پاکستان کو عظیم تر ملک بنانے کا انتخاب کرتے ہیں ہےیہ اقدام یقیناً مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں۔ بار اور بنچ اگر اکھٹے نہیں ہوں گے تو آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بات کون کرے گا؟ اگر ہم نے اپنے آپ کو نہ بدلا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ وزیراعظم نے بدھ کو وکلاء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پورے ملک میں سیلاب نے ایک تباہی مچائی ہوئی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، ملک بھر سے آئے ہوئے وکلاء نے اپنے علاقوں میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی شدید تباہی کا مشاہدہ کیا ہو گا، یہ قدرتی آفت ایک ایسے وقت میں آئی جب پہلے ہی ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب تھا، حکومت نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا اور معاشی عدم استحکام کو کسی حد تک کنٹرول کیا لیکن مہنگائی اپنے عروج پر ہے، اس میں کسی کو کوئی شک نہیں، 11 اپریل کو جب حکومت تبدیل ہوئی تو ڈیڑھ ماہ ہم فیصلے کرنے میں شش و پنج کا شکار تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میں یہاں سیاست نہیں قومی امور پر بات کرنے کیلئے آیا ہوں، آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی گذشتہ حکومت نے پاسداری نہیں کی اور اس کی بری طرح دھجیاں بکھیریں جس پر آئی ایم ایف نے گذشتہ حکومت کی طے کردہ شرائط پر عملدرآمد سے پروگرام کو مشروط کر دیا۔


 انہوں نے کہا کہ وہ وکلاء برادری کے سامنے یہ سوال رکھتے ہیں کہ کیا آج 75 سال بعد پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے کیا پاکستان اس لئے معرض وجود میں آیا تھا اور قائداعظم جو ایک ماہر قانون دان تھے انہوں نے عظیم بصیرت اور وڑن کیساتھ علامہ اقبال کیساتھ ملکر پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور اس کیلئے عظیم تحریک چلائی تھی اور لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، لاکھوں لوگوں نے ہجرت کی ان قربانیوں کے طفیل پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہاں نظریہ ضرورت بھی دریافت ہوا، پاکستان ہی نہیں دنیا کی تاریخ میں وکلاء نے اپنی عظیم تحریک سے ججز بحالی کی تحریک چلائی، وکلاء کو یہ مقام جدوجہد سے ملا ہے، انہوں نے اس کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں، ان تمام تر ترجیحات اور کامیابیوں کے بعد آج 75 سال بعد ہم ایک دائرے میں ہی چل رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جوہری طاقت ہونے کے بعد پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا ہے لیکن معاشی اعتبار سے بہت سے چھوٹے ممالک ہم سے آگے نکل چکے ہیں، آج 75 سال بعد بھی ہم کشکول لے کر پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قوم ہم سے یہ سوال پوچھتی ہے کہ قائداعظم کا خواب آج بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا اور آج بھی ہم اس ملک کے اندر غربت اور بے روزگاری کے خلاف لڑ رہے ہیں، جن ممالک کے ساتھ ہمارا مقابلہ تھا، ہندوستان میں روپے کی قدر ہم سے کم تھی، آج وہ ہم سے بہت آگے ہے، ہم چاہتے ہیں کہ تمام طبقات جو تاریخ کا رخ موڑنے کی استعداد کے حامل تھے ان سے قوم یہ سوال پوچھتی ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بار اور بنچ اگر اکٹھے نہیں ہوں گے تو انصاف اور قانون و آئین کی حکمرانی کی بات کون کرے گا، آئین پر حملہ آور ہونے والوں کے خلاف کون کھڑا ہو گا؟  اگر ہم فیصلہ کر لیں کہ ہم نے اس ملک کی تقدیر بدلنی ہے مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔


وزیراعظم شہباز شریف نے وکلاء کنونشن میں جو کچھ ارشاد فرمایابالکل درست اور پوری قوم کے دل کی آواز بھی ہے۔پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ان کے پیشرو وزرائے اعظم بھی اسی قسم کی خوش کن تقاریر کرتے رہے مگر بد قسمتی سے ہمارے سیاسی قائدین کے قول و فعل میں تضاد ہے وہ جو کچھ اپنی تقریروں میں ارشاد فرماتے ہیں اس پر عملدرآمدنہیں کراتے ۔ہمارے حکمرانوں اور قائدین کے قول وفعل میں تضاد ہی کی وجہ سے قدر ت کی تمام تر انمول نعمتوں سے مالا مال ایٹمی پاکستان آج دنیا کی عظیم ترین فلاحی مملکت ہوتا ۔پوری قوم کی شدید ترین خواہش اور دعا بھی ہے کہ ہمارے قائدین قول کے غازی بننے کی بجائے کردار کے بھی غازی بنیں اوربابائے قوم کے تصورات اور فرمودات کو عملی جامہ پہنا کر اپنے پاک وطن کو ترقی اور خوشحالی کی منازل سے ہمکنار کر سکیں ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں