تحریر: عمران محمود |
غلامِ مصطفیٰ ؐ ہواجو پھر کیا نہ ہوا زمانہ اس کا اور وہ زمانے کا ہوا
اللہ کے خاص بندے شروع ہی سے خاص ہوتے ہیں۔بناوٹی بندہ کبھی بھی حقیقی فقیر نہیں بن سکتا۔ اصل فقیر اصل ہوتا ہے۔وہ عام بندوں کے لیئے اللہ کی طرف سے ایک خاص نعمت کا درجہ رکھتا ہے ۔ اس کی ذات دنیا کے لیئے مشعل ِراہ کی مانند ہوتی ہے جو زندگیوں کو روشن کرتا ہے۔ لیکن زمانہ اپنی زندگی میں اس قدر مگن رہتا ہے کہ فقیر کی زندگی میں زمانے کو اس کی پہچان نہیںہو پاتی ۔فقیر استادوں کا بھی استاد ہوتا ہے ۔ استاد ایک خاص طبقے کی تربیت کرتا ہے جبکہ فقیر معاشرے کے ہر طبقے کے ساتھ استاد کی بھی تربیت کرتا ہے ۔اس کے پاس خاص روحانیت و سکون کاعطا کردہ خزینہ و خوبصورت علم ہوتا ہے ۔ لوگ اس کے پاس بیٹھ کر فیض اور روحانیت پاتے ہیں۔برائیوں کے زخموں سے چھلنی روحیں فقیر کے پاس آکرمرہم بیماری پاکر صحت یاب ہو تی ہیں۔ فقیر اللہ کی یاد میں مست رہتا ہے۔وہ اپنے کریم آقا ﷺ کے ساتھ سچی محبت رکھتا ہے ۔آپؐ کی مبارک یادوں اور باتوں کے تذکرے سے وہ لوگوں کے دلوں کو مو لینے کا ہنر جانتا ہے ۔ وہ ہرپل آپ ؐ کی یادوںاور درودوں کے سائے میں رہتا ہے۔ وہ دیدار ِ مصطفیٰؐ کا طالب رہتا ہے۔آپؐ کی یادوں میں وہ رب کے ساتھ ملنے کا رستہ پاتا ہے۔آپؐ کی محبت سے اللہ کی پہچان پاتا ہے۔فقیر کی زندگی شروع ہی سے دیگر لوگوں سے بہت زیادہ مختلف ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی خوشی دیکھ کر حسد نہیں کرتا، دعا دیتا ہے۔وہ کم لیکن حلال پسند کرتا ہے۔ وہ جھکا ہوتا ہے ا ور لوگوں کے معاملات میں آسانی پیدا کرتا ہے۔ وہ مثبت سوچتا ہے۔ وہ متکبر اور بے مخلص لوگوں سے دور رہتا ہے۔وہ ظلم و ناانصافی کے خلاف آواز اٹھا تا ہے۔ وہ دوسروں کے غم دیکھ کردکھی ہو جاتا ہے او ر ا ن کے دکھوں کے مداوے کے لیئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور دعا بھی ۔وہ لوگوں کے مشکل ترین مسائل کو نہایت احسن اور آسان انداز سے چند مختصر جملوں سے حل کردیتا ہے۔ اس کا وجود معاشرے کے لیئے باعث ِنفغ و برکت ہوتا ہے۔اس کا دل صاف ہوتا ہے۔ اس کی دعائوں میں اثر ہوتا ہے۔ نظر رکھنے والے لوگ فقیر سے دعائوں کی درخواست کرتے ہیںکیونکہ وہ اللہ کے قریب ہوتا ہے۔ فقیر کو وقت کے ساتھ ساتھ عجیب وارداتوں کا سامنار ہتا ہے جس سے یہ بات اس کی سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ چنیدہ اور خاص ہے۔ اس کا مقصد خاص ہے۔ اس کی زندگی خاص ہے۔ لہٰذہ وہ ان عوامل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اللہ کے خاص فضل کی بدولت، صحیح معنوں میں زندگی گزارنے کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش میں لگا رہتا ہے۔ وہ اس جدوجہد کو جاری رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی خاص عطا سے رنگ دیا جاتا ہے ۔ وہ گوہرِ نایاب ہوتا ہے۔ فقیر دنیا میں جنت کی مخلوق ہوا کرتا ہے۔
فقیر، فقیروںمیں رہنا پسند کرتا ہے۔وہ غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ رہنا فخر سمجھتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ روزِ قیامت سرکارِ کل جہاں ﷺ بھی غریبوں اور کمزوروں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اس کو دنیا کے بڑے عہدیدار، مالدار اور طاقتورلوگوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا ڈر کیونکہ اس کی لو اللہ سے لگی ہوتی ہے۔وہ حق پہچانتا اور اس کو پہنچاتا ہے خواہ اس کے لیئے کوئی بھی قیمتی چکانی پڑے۔فقیر صاحب ِ نظر ہوتا ہے ۔ اس کو ارد گردکے ماحول، فطرت، نظاروں، سورج و چاند اورقدرت کی دیگر چھوٹی بڑی نشانیوں کے مشاہدے کروائے جاتے ہیں جس سے وہ زمانہ شناس ہو تا ہے۔ اس کی آنکھوں سے پوشیدہ رازوں کی پٹی بھی ہٹا دی جاتی ہے۔ اس کے دیکھنے کا زاویہ بھی الگ ہوتا ہے۔اس کی باتیں پر اثر اور مدلل ہوتی ہیں۔فقیر کی سب سے بڑ ی نشانی یہ ہے کہ وہ مخلص ہوتا ہے ،لالچی نہیں ہوتا۔ وہ مال جمع نہیں کرتا، مال خرچ کرتا ہے۔ فقیر کبھی مالی تنگدستی کا شکار نہیں ہوتا کیونکہ وہ شروع ہی سے قناعت پسند اور کم خواہشات کا طالب ہوتا ہے۔دنیاوی خواہشات کی کثرت میں دلچسپی رکھنے والامگن شخص کبھی بھی فقیری میں داخل نہیں ہو سکتا۔ فقیر کی ذات میں خیر کے پہلو غالب ہوتے ہیں چنانچہ وہ خود بھی ہمیشہ غالب ہی رہتا ہے۔ فقیر اپنے طرز ِ عمل اور خوبیوں کے نایاب مجموعے سے معاشرے میں ایک اہم اور جداگانہ مقام رکھتا ہے ۔وہ شروع ہی سے لوگوں کے گھیرے میں رہتا ہے ۔ لوگ اس کی محفل میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی بات کو نہایت اہمیت دی جاتی ہے اور غور سے سنی جاتی ہے۔ اس کی صحبت میں رہنے والے لوگوں پر فقیری اورمحبت کا رنگ چڑھتا ہے۔ یوں فقیری کا سلسلہ فقیروں میں بٹ جاتا ہے اور فقیروں کی لڑی بنتی جاتی ہے ۔ سارے فقیر اس لڑی میں پروئے ہوتے ہیں۔ اس ساری فقیری لڑی کا مرکز صاحبِ حوض ِکوثر جناب محمد مصطفیٰ ﷺ کی ہستی ہیں۔ فقیر بزرگوںسے محبت رکھتا ہے۔ ان کی باتوں اور یادوں سے فیض لیتا ہے۔ فقیر پرالفاظ، جملوںاور خیالات کی آمد ہوتی ہے جس سے وہ سمندر ِ روحانیت میں تیر تے ہوئے خاص ہیرے موتی نکال کر لوگوں کے سامنے رکھ دیتا ہے جس سے ان کی زندگی آسانی اور کامیابی کے رستے پر چلتی ہے۔فقیر جب فطرت کے نظاروں کا ذکر کرتا ہے تو سننے والوں پر سحر طا ری ہو جاتا ہے اور ان کوسکون و روحانیت کا احساس ہوتا ہے۔ اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ اپنے مقصد کا احساس ہوتا ہے۔ فقیر مشکلات و مصائب میں گھبراتا نہیں، نہ ہی گلہ کرتاہے بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ پر یقینِ کامل رکھتا ہے۔ فقیر جب دنیا سے جاتا ہے تو بھی اپنے فیض، باتوں اور یادوں کی شکل میں لوگوں میں موجود رہتا ہے۔دنیا کی عارضی شہرت رکھنے والے، کھوکھلی طاقت و دولت اوراقتدار کے نشے لوٹنے والے، غریبوں و کمزوروں سے دور رہنے والے ایک دن مٹ جاتے ہیں ۔ فقیرمر کر بھی دائمی زندگی پا تا ہے ۔ امر ہو جاتا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں