(قسط نمبر1 )
منیجر کے کمرے سے رمیش نکلا تو اُس کے چہرے پر حسب معمول سکون اور اطمینان تھا۔ لنچ ٹائم تھا اس لئے دفتر میں سبھی لوگ لنچ کر رہے تھے اور گپ شپ بھی۔ ایک کلرک نے رمیش کی طرف دیکھ کر اپنے ساتھی سے کہا۔ ’’ بڑی میاں بڑے پُر سکون نظر آ رہے ہیں شاید اچھا مال ہاتھ لگ گیا ہے۔ ‘‘
دوسرا کلرک منہ بنا کر بولا۔ ’’ مجھے لگتا ہے تم سارے دن سوتے رہتے ہو۔ ہم رمیش بابو کو پچھلے پچیس برسوں سے اسی طرح مطمئن دیکھ رہے ہیں، ان کے چہرے پر ہمیں کبھی تشویش یا پریشانی کے آثار دکھائی نہیں دیئے۔ تمہی بتائو انہیں پچپن سال کا کون کہہ سکتا ہے۔ ‘‘
’’ کیا؟‘‘ پہلا کلرک حیرت سے کہنے لگا۔ ’’ میں تو انہیں چالیس پینتالیس سے زیادہ کا نہیں سمجھتا۔ کوئی جڑی بوٹی کھاتے ہوں گے یہ جوان نظر آنے کے لئے۔ ‘‘
’’ سب سے بڑی جڑی بوٹی بے فکری ہے۔ جب میں نیا نیا یہاں نوکر ہوا تھا تو رمیش بابو کے پاس کار تھی۔ ان کے جسم پر عمدہ لباس ہوتا تھا اور ہاتھ میں بریف کیس۔ اُس وقت بھی ان کے چہرے پر ایسا ہی سکون ہوا کرتا تھا۔ اب تو یہ زیادہ تر پیدل چلتے ہیں۔ کہیں دور جانا ہو تو لوکل ٹرین میں جاتے ہیں اور معمولی لباس پہنتے ہیں۔ مگر پھر بھی ان کے رویئے میں کوئی فرق نہیں پڑا جیسے اب بھی یہ پہلے کی طرح خوش حال ہوں شاید یہی ان کی صحت کا راز ہے۔
’’ کیا اکیلے ہیں‘‘ ایک کلرک نے پوچھا۔
’’ نہیں، بیوی ہے ایک بیٹی اور ایک بیٹا بھی ہے۔ ایک بات پر بہر حال مجھے بھی حیرت ہوتی ہے کہ رمیش بابو اپنے گھر کا خرچ کس طرح چلاتے ہیں۔ ‘‘ پہلے کلرک نے جواب دیا۔ ’’ آج کل ان کے پاس جو پالیسیاں ہیں، ان کا پریمیم پانچ سو روپے ماہوار بنتا ہے۔ ‘‘
’’ تو پھر ان کا گزارہ کس طرح ہوتا ہے؟ کوئی دوسرا دھندا تو نہیں کرتے؟‘‘
’’ نہیں، صرف یہی کام ہے ان کا۔ ‘‘ پہلے کلرک نے بتایا۔ ’’ دیکھ لو، پھر بھی کتنے خوش ہیں۔ ‘‘
رمیش ان لوگوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سن چکا تھا۔ وہ اُن کے پاس آیا اور مسکرا کر بولا۔ ’’ آپ سب لوگ میری ایک بات گرہ میں باندھ لیجئے، ہر حال میں خوش رہنا سیکھ لیں ، اسی میں کامیابی کا راز ہے۔ دراصل ہم لوگ دوسروں کی قیمتی کاروں اور عالی شان بنگلوں کو دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ سب ہمارے پاس کیوں نہیں ہے۔ اگر ہم جھونپڑیوں میں رہنے والوں پر نظر ڈالیںتو معلوم ہو گا کہ ہم اُن سے کہیں بہتر ہیں۔
اچانک منیجر کے کمرے سے چیخنے چلانے کی آوازیں سنائی دیں ۔ وہ کسی ایجنٹ پر برس رہا تھا۔ اُس ایجنٹ نے دو ماہ پہلے دل کے ایک مریض کو پالیسی دلوائی تھی جو مر گیا تھا۔ اب کمپنی کو دو لاکھ روپے ادا کرنے تھے۔ سب اُس طرف متوجہ ہو گئے اور رمیش چپ چاپ باہر نکل گیا۔
بس اسٹاپ پر لمبی لائن تھی۔ رمیش پنواڑی کے پاس گیا اور اُس سے کہا ۔’’ پنواڑی جی! آپ کے پاس پانچ سو کے نوٹ کا کھلا ہے؟ دراصل مجھے بس میں جانا ہے اور نوٹ بندھا ہوا ہے، کنڈیکٹر اس کا کھلا نہیں دے گا۔ ‘‘
’’ کھلا تو میرے پاس بھی نہیں ہے۔ ‘‘ پنواڑی نے جواب دیا۔ ’’ ایسا کریں، آپ یہ بیس روپے لے لیں، جب کھلے ہو جائیں تو واپس کر دیجئے گا۔‘‘
پنواڑی برسوں سے رمیش کو جانتا تھا اس لئے یہ پیشکش رمیش کو غیر معمولی نہیں لگی۔ پھر بھی اُس نے پانچ سو کا نوٹ پنواڑی کی طرف بڑھا دیا۔
’’ ارے ارے، رہنے دیں۔‘‘ پنواڑی ہاتھ اُٹھا کر کہنے لگا۔ ’’ میں کہاں رکھوں گا اسے۔ ‘‘
رمیش نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور بیس روپے لے کر چل دیا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ بس میں سفر کر رہا تھا۔ بس میں اُس کا ایک دوست بشن لال مل گیا تھا۔ رمیش نے اُس نے بھی ٹکٹ لے لیا۔ اُسے معلوم تھا کہ بشن لال کو کہاں تک جانا ہے۔ اکثر بش لال اُسے دفتر سے واپسی میں سفر کے دوران مل جاتا تھا۔
ٹکٹ لے کر رمیش نے کنڈیکٹر کی طرف پانچ سو کو نوٹ بڑھا دیا تو کنڈیکٹر نے ’’ کھلا دیو‘‘ کہہ کر نو ٹ نہیں لیا۔
رمیش نے بش لال کی طرف دیکھا تواُس نے کرایہ دے دیا۔ سفر جاری رہا اور بش لال اپنے اسٹاپ پر اُتر گیا۔ رمیش کو بھی اگلے اسٹاپ پر اُترنا تھا اس لئے وہ سیٹ سے اُٹھ کر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ ایک جیب کترے نے ہاتھ کی صفائی دکھانی چاہی اور رمیش کے قریب آ گیا۔ حلیے ہی سے رمیش نے اُسے پہچان لیا اور محتاط ہو گیا۔ جیب کترے کو کامیابی نہیں ہوئی اور رمیش اپنے اسٹاپ پر اُتر گیا۔ گھر کے قریب ہی چھوٹی سی ایک مارکیٹ تھی، رمیش اُس میں داخل ہو گیا۔ مارکیٹ میں ایک دُکان پر پہنچ کر رمیش نے پانچ کلو آٹا لیا اور دکاندار کی طرف پانچ سو روپے کا نوٹ بڑھا دیا۔
’’ ارے رمیش بابو! پانچ سو کا نوٹ وہ بھی مہینے کے آخر میں ۔ میرے گلے میں تو دو سو روپے بھی نہیں ہیں۔ ‘‘ دکاندار بولا۔
’’ معاف کرنا۔ ‘‘ رمیش نے کہا ۔ ’’ یہ آٹا واپس رکھ لو، میں نے خواہ مخواہ تمہیں تکلیف دی۔ ‘‘
’’ آپ بھی کمال کرتے ہیں رمیش بابو! آپ سے میں نے آٹا واپس کرنے کو کب کہا ہے؟ آپ کوئی نئے گاہک ہیں کیا کہ اتنے سے روپوں کے لئے میں آپ سے آٹا واپس لے لوں گا۔ مجھے وہ وقت یا دہے جب آپ کار میں آتے تھے اور ہزاروں روپے کا سودا نقد لے جاتے تھے۔ ‘‘ دکاندار کہنے گا۔
’’ ہاں بھئی کبھی کے دن بڑے کبھی کی راتیں۔‘‘ رمیش نے یہ کہتے ہوئے ٹھنڈا سانس بھرا۔
(جاری ہے بقیہ ناول اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں