عمرو اور بوتل کا جن ۔۔۔ ۔ قسط نمبر1 - App Urdu News | Urdu News | Latest Urdu News

بریکنگ نیوز

عمرو اور بوتل کا جن ۔۔۔ ۔ قسط نمبر1

 

Umro aur Bottel ka Jin Urdu Khani

قسط نمبر1 


عمرو عیار گھوڑا دوڑاتا ہوا نہایت تیزی سے سردار امیر حمزہ کے لشکر کی طرف بڑھا چلا جا رہا تھا۔ وہ سردار امیر حمزہ کا ایلچی بن کر ایک پیغام لے کر ملک ایران گیا تھا اور اس نے شاہ ایران کو سردار امیر حمزہ کا پیغام دے دیا تھا اور پھر وہاں رکے بغیر واپس ہو لیا تھا۔ 

ان دنوں چونکہ سردار امیر حمزہ اور شہنشاہ افراسیاب کی فوجوں کے درمیان زبردست جنگ ہو رہی تھی اس لئے عمرو بھی اس جنگ میں باقاعدگی سے حصہ لے رہا تھا۔ سردار امیر حمزہ نے اسے پیغام دے کر ایران جانے کے لئے کہا تو عمروہ ایک لمحے کے لئے پریشان ہو گیا۔ اس کا دل تو نہیں چاہ رہا تھا کہ وہ جنگ چھوڑ کر جائے لیکن چونکہ سردار امیر حمزہ کا حکم تھا اس لئے وہ ان کا پیغام لے کر فوراً وہاں سے روانہ ہو گیا تھا اور پھر پیغام پہنچانے کے بعد اس نے وہاں رکنے کی کوشش نہیں کی تھی اور اسی دن واپسی کے لئے روانہ ہو گیا تھا۔ 

وہ تھکا ہوا ضرور تھا کیونکہ اسے ایک ہی دن میں دو مرتبہ طویل سفر کرنا پڑ رہا تھا۔ گھوڑے کو وہ بگٹٹ بھگا رہا تھا۔ شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے اور عمرو کی کوشش تھی کہ وہ رات ہونے سے پہلے سردار امیر حمزہ کے لشکر میں پہنچ جائے۔ اس کے گھوڑے کا نام طوفان تھا اور وہ طوفان بن کر ہی نہایت تیزی سے دوڑتا جا رہا تھا۔ 

اس وقت عمرہ ایک جنگل میں سے گزر رہا تھا جنگل میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک جانے کا چونکہ مخصوص راست بنا ہوا تھا اس لئے گھوڑے کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ ابھی گھوڑے نے آدھاجنگل ہی پار کیا ہو گا کہ اچانک گھوڑے کی رفتار کم ہونا شروع ہو گئی۔ گھوڑے کی رفتار کم ہوتے دیکھ کر عمروچونک پڑا ۔ اس نے باگیں کھینچ کھینچ کر گھوڑے کی رفتار تیز کرنے کی کوشش کی مگر گھوڑا تیز ہونے کے بجائے اور آہستہ ہو گیا اور پھر آہستہ آہستہ اس کی رفتار اتنی کم ہو گئی کہ وہ محض قدم آگے بڑھا رہا تھا۔ 

’’ کیا بات ہے طوفان۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ تم نے رفتار کیوں کم کر دی ہے۔ کیا تھک گئے ہو۔‘‘ عمرو نے گھوڑے سے مخاطب ہوکر پریشانی کے عالم میں کہا گھوڑا  اسے بھلا کیا جواب دے سکتا تھا۔ وہ جنگل میں بنے ہوئے راستے پر بہت آہستہ آہستہ چل رہا تھا جیسے آگے خطرہ ہو ۔ 

’’ آگے خطرہ ہے آقا۔ اس لئے طوفان کی رفتار کم ہو گئی ہے‘‘۔ اچانک زنبیل سے محافظ بونے نے سر نکال کر کہا کہ عمرو عیار بے اختیار چونک پڑا۔ 

’’ خطرہ ۔ کیا مطلب کیسا خطرہ‘‘۔ عمرو نے حیران ہو کر کہا۔ 

’’ ابھی چند لمحوں میں آپ کے سامنے آ جائے گا پھر آپ خود دیکھ لینا‘‘۔ محافظ بونے نے کہا۔ 

’’ کون سامنے آ جائے گا۔ کس کی بات کر رہے ہو‘‘۔ عمرو نے حیران ہو کر پوچھا۔ 

’’ میرخطرے کا بتا رہا ہوں‘‘۔ محافظ بونے نے جواب دیا۔ 

’’ تم ہمیشہ مجھ سے الٹے انداز میں کیوں بات کرتے ہو، کوئی بات سیدھے طریقے سے نہیں بتا سکتے‘‘۔ عمرو نے منہ بنا کر کہا اور محافظ بونے کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ 

’’ اس یں مسکرانے والی کون سی بات ہے‘‘۔ اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر عمرو نے اور زیادہ منہ بناتے ہوئے کہا۔ 

’’ تو کیا رونے والی بات ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں تو میں رونا شروع کر دیتا ہوں‘‘۔ محافظ بونے نے مزاحیہ انداز میں کہا۔ 

’’ ہونہہ۔ محافظ بونے میں پہلے ہی پریشان ہوں۔ میں جلد سے جلد لشکر میں پہنچنا چاہتا ہوں۔ ایک تو طوفان نے رفتار کم کر دی ہے اور اُوپر سے تم مجھ سے مذاق کر رہے ہو۔ کیا یہ مذاق کرنے کا وقت ہے‘‘۔ 

عمرو نے تیز لہجے میں کہا۔ 

’’ نہیں آقا۔ یہ مذاق کرنے کا نہیں خطرے سے نپٹنے کا وقت ہے‘‘۔ محافظ بونے نے کہا۔ 

’’پھر وہی بات۔ آخر خطرہ ہے کیا۔ کیا کوئی جانور ہے راستے میں‘‘۔ عمرو نے کہا۔ 

’’ نہیں‘‘۔ محافظ بونے نے انکار میں سر ہلا کر کہا۔ 

’’ اوہ۔ پھر یقینا آگے کوئی سانپ ہو گا کیونکہ گھوڑے عموماً سانپوں سے بدکتے ہیں اور دور سے سانپ کی موجودگی محسوس کر کے رک جاتے ہیں‘‘۔ عمرو نے کہا۔ 

’’ نہیں سانپ بھی نہیں ہے‘‘۔ محافظ بونے نے کہا۔ ’’ جانور نہیں ہے۔ سانپ بھی نہیں ہے پھر ہے کیا‘‘۔ عمرو نے تیز لہجے میں کہا۔ 

’’ خطرہ‘‘۔ محافظ بونے نے کہا اور عمرو اسے گھور کر رہ گیا۔ 

’’ تو تم نہیں بتائو گے‘‘۔ عمرو نے اسے غصیلی نظروں سے گھورتے ہوئے کہا اس سے پہلے کہ محافظ بونا کوئی جواب دیتا اچانک گھوڑا رک گیا اور اس نے اگلے سم زمین پر زور زور سے مارتے ہوئے ہنہنانا شروع کر دیا۔ عمرو نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اس کی نظر کچھ فاصلے پر ایک عجیب و غریب پتھر پر پڑی، پتھر نیچے سے گول اور اوپر سے کسی بوتل کی طرح لمبا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہاں پتھر کی بنی ہوئی کوئی بوتل پڑی ہو۔ 

’’ یہ کیا ہے‘‘۔ عمرو نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔ ’’ پتھر کی بوتل‘‘۔ محافظ بونے نے کہا۔ 

’’ پتھر کی بوتل۔لیکن یہ یہاں کیوں پڑی ہے۔ کیا ہے اس میں‘‘ ۔ عمرو نے کہا۔ 

’’ آپ خود ہی گھوڑے سے اُتر کر اس بوتل کو اُٹھا کر دیکھ لیں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ اس میں کیا ہے۔ لیکن آپ کو احتیاط سے اس بوتل کی طرف جانا پڑے گا ورنہ ۔۔۔‘‘ ۔ محافظ بونے نے کہا اور جان بوجھ کر بولتے بولتے رک گیا۔ 

’’ ورنہ۔ ورنہ کیا‘‘۔ عمرو نے تیز لہجے میں کہا۔ 

’ ’ طوفان اس بوتل سے ڈر رہا ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ آپ بھی اس بوتل سے ڈر جائیں‘‘۔ محافظ بونے نے کہا اور عمرو محافظ بونے کی طرف یوں دیکھنے لگا جیسے۔۔۔۔

( جاری ہے باقی اگلی قسط میں ملاحظہ کیجئے) 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں