قسط نمبر2
’’ رمیش بابو! آپ جیسے ہر حال میں خوش رہنے والے لوگ زیادہ دن پریشان نہیں رہ سکتے۔‘‘ دُکاندار کے لہجے سے خلوص کا اظہار ہو رہا تھا۔ ’’ لگتا ہے اُوپر والا آج کل آپ کا امتحان لے رہا ہے۔ آپ کیونکہ نیک اور شریف آدمی ہیں اس لئے مجھے اُمید ہے کہ آپ اس امتحان میں کامیاب گزر جائیں گے۔ ‘‘
رمیش اُس دُکاندار کا شکریہ ادا کر کے سبزی والے کی طرف بڑھنے لگا۔ سبزی فروش سے سبزی لے کر بھی رمیش نے اُسے پانچ سو روپے کا نوٹ دکھایا۔ سبزی والا بھی ’’ بعد میں دے دیجئے گا‘‘ کہہ کر دوسرے گاہک کے لئے آلو تولنے لگا۔
سودا لے کر رمیش آگے بڑھا اورایک جگہ رُک کر اُس نے جیب سے ڈائری نکالی۔ ڈائری میں وہ نوٹ کرنے لگا کہ آج کس کس سے اُدھار لیا ہے۔ پھر اُس کے قدم اپنے گھر کی طرف اُٹھنے لگے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اُدھار اب خاصا بڑھ گیا ہے، اب اسے اُتارنے کی بھی کوئی صورت نکالنی پڑے گی۔
انوپ اپنی گیلری میں آنکھوں سے دُور بین لگائے کھرا تھا۔ اُس کی نظریں ایک بھکاری پر جمی ہوئی تھیں۔ بھکاری کے جسم پر لمبا سیاہ لبادہ اور سرپر سیاہ کپڑا بندھا تھا۔ یہ رمیش کا نوجوان بیٹا تھا ۔ اُس کا جسم تو جوانی کی حدود میں داخل ہو چکا تھا مگر ذہنی طورپر ابھی وہ ایک بچہ ہی تھا۔ جب سے اُس نے یہ سنا تھا کہ ملک میں غیر ملکی دہشت گرد داخل ہو گئے ہیں، وہ ہر شخص کو شک و شبے کی نظر سے دیکھنے لگا تھا۔ اُسے جاموسی کا خبط تھا اور خود کو جیمس بانڈ سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ بھکاری کو دیکھ کر وہ بڑبڑا رہا تھا۔
’’ یہ تو مجھے بہت خطرناک لگتا ہے۔ ضرور سیاہ لبادے کے نیچے سوٹ ہو گا۔ اس کی داڑھی اور مونچھیں بھی نقلی ہوں گی۔ یہ کوئی دہشت گرد ہے یا پھر دشمن کا جاسوس ہے۔‘‘
دُور بین کے سامنے دوسرا آدمی آ گیا جو پان کھا رہا تھا۔ اُس نے پچکاری ماری تو بے وقوف انوپ کو یوں لگا، پچکاری اُس کے اوپر آ رہی ہے۔ وہ ہڑ بڑا کر پیچھے ہٹا تو چوکھٹ سے ٹکرا کر گر گیا۔ اُس کی ماں سلوچنا کو گرنے کی آواز سنائی دی تو آواز دے کر پوچھا۔ ’’ کیا ہوا؟۔۔۔ کون گرا ہے؟‘‘
’’ گھر میں گرنے کو اس وقت اور کون ہے ماں!‘‘ انوپ اُٹھتے ہوئے زور سے بولا۔ ’’ میں ہی گرا تھا اور اب اُٹھ چکا ہوں۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اُس نے دُور بین دوبارہ آنکھوں سے لگائی تو بھکاری جا چکا تھا۔ اُس کی جگہ اُسے رمیش نظر آ رہا تھا۔
اسی عرصے میں سلوچنا اُس کے پاس آ گئی اور پوچھنے لگی۔ ’’ کہیں چوٹ تونہیں لگی؟‘‘
’’ نہیں ماں، مگر وہ ۔۔۔ وہ غیر ملکی ایجنٹ غائب ہو گیا جو۔۔۔‘‘
سلوچنا نے اُس کی بات کاٹ دی۔ ’’ تیرا تو دماغ خراب ہو گیا ہے!۔۔۔ تجھے ہر آدمی مشتبہ دکھائی دیتا ہے۔ لگتا ہے کسی روز مجھ پر اور اپنے باپ پر بھی شک کرنے لگے گا۔ہر وقت دُور بین آنکھوں سے لگائے یہاں گیلری میں کھڑا رہتا ہے۔‘‘
’’ دیکھ لینا ماں، کسی روز میں اپنی کوشش میں کامیاب ہو جائوں گا۔ پھر دنیا تم کو ایک مہان جاسوس کی مان کہے گی۔ ارے یہ کیا ؟۔۔۔ یہ آدمی تو بالکل ڈیڈی کی طرح دکھائی دے رہا ہے!‘‘ انوپ چونک کر بولا، پھر اپنی ماں سے پوچھا۔ ’’ کیا ڈیڈی کا کوئی جڑواں بھائی بھی تھا؟ ۔۔۔ جیسا کہ فلموں میں ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ ڈیڈی کا وہ جڑواں بھائی کسی میلے یا ہسپتال میں اپنے خاندان سے بچھڑ گیا ہو!‘‘
’’ یہ کیا بکواس کر رہا ہے تو؟ ‘‘ سلوچنا سخت لہجے میں بولی۔ ’’ جو منہ میں آتا ہے بکنے لگتا ہے۔ ‘‘
’’ بکواس نہیں کر رہا میں!۔۔۔ تم خود ہی دیکھ لو!۔۔۔ یہ لو دُور بین!‘‘ انوپ نے دُور بین اُس کی طرف بڑھائی ۔ ’’ ڈیڈی کا ہم شکل ، شرما انکل سے باتیں کر رہا ہے۔ ‘‘
’’ مجھے بغیر دُور بین کے بھی نظر آتا ہے۔ ‘‘ سلوچنا نے انوپ کا ہاتھ جھٹک دیا اور اُس طرف دیکھنے لگی جدھر انوپ اشارہ کر رہا تھا۔ چند لمحے بعد اُس نے انوپ کو مخاطب کیا۔ ’’ بے وقوف! وہ تیرے ڈیڈی ہی ہیں، اُن کا کوئی ہم شکل نہیں۔ ‘‘
اُسی وقت دروازے پر دستک ہوئی۔ سلوچنا تیزی سے دروازے پر پہنچی اُس نے دروازہ کھولا تو سامنے لکشمی کھڑی تھی۔ اُس کے ہاتھ میں کچھ سامان بھی تھا۔ وہ اندر آ گئی اور بولی۔ ’’ سلوچنا بہن! ذرا سا نمک دے دو ورنہ تو آج پھیکا ہی سالن کھانا پڑے گا‘‘۔
’’ کیوں ، کیا تمہارے شوہر کو پھر شراب پینے کا دورہ پڑ گیا ہے؟‘‘
’’ ہاں بہن، جو کچھ کماتے ہیں، شراب میں اُڑا دیتے ہیں۔ اگر کھانا نہ ملے تو مارتے ہیں۔ اسی طرح شراب خریدنے کے لئے پیسے نہ دو تو مارپیٹ پراُتر آتے ہیں۔ ‘‘
’’ مگر تم اس طرح مانگ تانگ کر کب تک گھر چلائو گی؟‘‘ سلوچنا نے لکشمی سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
’’ تو پھر کیا کروں!۔۔۔ جوان بیٹی کا ساتھ ہے ۔ بھوکی رہ سکتی ہوں مگر اُسے تو۔۔۔‘‘ لکشمی کی آواز بھراگئی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
’’ میں تو کہتی ہوں کہ ایسے حرام خور شوہر پر لعنت بھیج دو۔۔ ۔ چھوڑ دو اُسے! اُس کی حرکتوں کا اثر تمہاری بیٹی پر بھی تو پڑ سکتا ہے‘‘ سلوچنا بولی۔
’’ اگر میں شوہر کو چھوڑ دوں تو سب سے زیادہ اس کا اثر میری بیٹی ششی ہی پر پڑے گا۔ ‘‘ لکشمی اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہنے لگی۔ ’’ مرد کو برا کوئی نہیں کہتا، سب عورت ہی میں کیڑے نکالنے بیٹھ جاتے ہیں۔ طلاق یافتہ عورت کو سماج بری نظر سے دیکھتا ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا اور نہیں پوچھتا کہ طلاق کی نوبت یوں آئی؟ قصور مرد کا تھا یا عورت کا؟۔۔۔
(جاری ہے بقیہ ناول اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں