میڈیاڈویلپمنٹ اتھارٹی بل ،عام صحافی کی نظرمیں - App Urdu News | Urdu News | Latest Urdu News

بریکنگ نیوز

میڈیاڈویلپمنٹ اتھارٹی بل ،عام صحافی کی نظرمیں

 

Daniyal Mushtafa Gopang


تحریر: دانیال مصطفی گوپانگ



ٓٓصحافتی تنظیمیں آج کل پارلیمنٹ ہائوس کے باہر دھرنے دئیے بیٹھی ہیں اور اس دھرنے کے وجہ موجودہ حکومت کی جانب سے مجوزہ میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل ہے ۔پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج کرنے والوں میں اکثریت یا تو نیوز اینکرز کی یا پھر مختلف صحافتی تنثیموں کے عہدیداران کی ہے ۔ ایک صحافی کے طور پر اس بل کو پڑھنے کے بعد میں گزشتہ کئی دن سے اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہ رہا تھا مگر صرف اس وجہ باز آجاتا تھا کہ ایسی تحریریں یا تو چھپتی نہیں ہیں یا پھر ان کے چھپنے کے بعد جس ادارے میں کام کررہے ہوتے ہیں وہاں پر حالات تنگ کردئیے جاتے ہیں ۔ کالم چونکہ لکھنے والی کی اپنے رائے میں شمار ہوتا ہے اسی لئے امید ہے کہ میری اس رائے کو جگہ دی جائے گی ۔وہ قارئین جن کو میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کے بارے میں معلومات نہیں ہیں ان کی آسانی کے لئے مختصرابتاتا چلوں کہ اس مجوزہ بل کا بنیادی مقصد ایک تو میڈیا(اخبارات،الیکٹرانک و سوشل میڈیا اور فلم ،ریڈیو)کو ریگولیٹ کرنے والے مختلف اداروں کی جگہ صرف ایک اتھارٹی قائم کرنا ہے ۔جس کے تحت پیمرا،اے بی سی و دیگر ادارے ایک اتھارٹی میں ضم ہوجائیں گے جو میڈیا کے خلاف شکایات ،اشتہارات کو ریگولیٹ ،ریٹنگ اور لائسنس کا اجراء کرسکے گی ۔اسی کے ساتھ ساتھ اگر کسی چینل نے کوئی جعلی خبر نشر کی تو اس پر باقاعدہ ایک پینل بیٹھے گا اور متعلقہ پلیٹ فارم کے خلاف جرمانے جیسی سزاوں کا اطلاق کرے گا۔جبکہ ایک ورکنگ صحافی اور مالکان کے مابین ہونے والے تنازعات اور کنٹریکٹ کے مسائل پر بھی ایک مقررہ مدت کے اندر اندر فیصلہ کیا جائے گا۔یہاں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ کسی بھی صحافی کی تنخواہ نہ رکے اور اس کو بغیر کسی ٹھوس وجہ کے نہ نکالا جاسکے ۔ 
قارئین کرام میں نے الیکٹرانک میڈیا میں گزرے حالات و واقعات پر پہلے بھی ایک کالم لکھاتھا ۔موجودہ حکومت کے قیام کے بعد سے اگر کسی پر صیح معنوں میں قیامت ٹوٹی تو وہ میڈیا ورکرز تھے ۔کئی سو اخبارات بند ہوئے ،کئی ہزار صحافی بے روزگار ہوئے ۔ان میں سے کئی تو دلبرداشتہ ہوکر چل بسے ،کسی نے خودکشی کرلی ،کسی نے رکشہ چلانا شروع کردیا تو کسی نے بریانی کی دکانیں لگا لیں ۔معزز قارئین اس بل کے خلاف پیش پیش اداروں کے اعمال کے بارے میں آپ کوآگاہ کرنے کا مجھے یہ نقصان ہوگا کہ متعلقہ اداروں میں ملازمت کے دروازے بند ہوجائیں گے ۔مگر میں نام کے ساتھ لکھ کرآپ لوگوں کے سامنے حقائق رکھوں گا ۔الیکٹرانک میڈیا میں جب کسی کی ملازمت ہوتی ہے تو اس سے کنٹریکٹ سائن کروایا جاتا ہے ،جس کے مندرجات یہ ہوتے ہیں کہ متفق علیہ کی تمام خدمات اس ادارے (کمپنی،مالک)کے لئے ہوں گی ،وہ ادارہ کسی بھی وقت(چوبیس گھنٹے میں کسی بھی وقت بلانے ) ان خدمات سے استفسادہ حاصل کرنے کا مجاز ہوگا۔ادارہ کسی بھی وقت کسی بھی ملازم کو بغیر کسی وجہ بتائے نکالنے کا مجاز ہوگا ،ہاں صرف یہ کیا جائے گا کہ ایک تنخواہ ییشگی ادا کی جائے گی ،جبکہ ملازم چھوڑنا چاہے گا تووہ ایک ماہ کا پیشگی نوٹس دے گا،ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس کو بقایاجات اور تجربہ کے سرٹیفکیٹ سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ اس حکومت کے آتے ہی کئی چینلز نے اپنے ملازمین کی چھٹی کردی ،آغاز دنیا نیوز سے ہوا جہاں درجنوں ملازمین کو نوکریوں سے ایک نوٹس کے ذریعے فارغ کیا گیا ،اور سب سے پہلے باری آئی چھوٹے سٹاف یعنی کہ کم تنخواہوں والے ڈی ایس این جی آپریٹرز ،کیمرہ مین ، سب ایڈیٹر،کاپی ایڈیٹر،این ایل ای اور مختلف شعبوں کے ایسوسی ایٹس کی ۔یقین مانیں یہ تمام افراد کی تنخواہیں 20سے35ہزار کے درمیان تھیں ۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک طرف اخراجات پورے نہ ہونے کے نام پر ڈاون سائزنگ جاری تھی تو دوسری جانب اسی ادارے کے مالک کی ائیرلائن کے لئے وفاقی کابینہ کی جانب سے لائسنس جاری کیا جارہا تھا۔بات صرف دنیا نیوز کی ہی نہیں ہے ،آزادی صحافت اور صحافیوں کے درد میں گھلے جانے والے جیونیوز نے پہلے پہلے تو مہینوں اپنے ملازمین کی تنخواہیں نہیں ادا کیں ساتھ ہی بیس سے چالیس فیصد تک تنخواہوں میں کٹوتی بھی کی گئی ۔اسی ادارے نے اپنی ذیلی مختلف روزنامے بھی یکدم بند کئے جس کے نیتجے میں کئی برسرروزگار صحافی دووقت کی روٹوں کے لالوں میں پڑگئے ۔ایکسپریس نیوز جو کہ ایک بڑے بزنس ٹائیکون کا ملکیتی ادارہ ہے وہاں پہلے ہی گدھے کی طرح کام کرنے والے سٹاف کی تنخواہیں کم تھیں نے ا نٹرنی بھرتی کرکے کام چلانا شروع کردیا۔ابتک ،نیوزون،ہم نیوز،جی این این اور سماء جیسے اداروں نے بھی ڈاون سائزنگ کے ساتھ ساتھ تنخواہوں میں کٹوتیاں کی جو تاحال برقرار ہیں ۔ظلم یہ دیکھیں کہ جن اداروں نے کٹوتیاں نہیں کی تھیں ان کے لئے اے آروائی نیوز کے مالک سلمان اقبال نے تمام میڈیا مالکان کے نام ویڈیو پیغام جاری کیا اور اس میں اس چیز کی نشاندہی کی کہ چونکہ میڈیا میں اس وقت سب سے زیادہ تنخواہیں ادا کی جارہی ہیں تو اب کٹوتیاں کرنا ناگزیر ہیں ۔جس کے بعد میرے ادارے (پبلک نیوز)سمیت بقیہ اداروں نے کٹوتیاں کیں ،اس کے باوجود کہ اول الذکر سمیت متعلقہ ادارے اپنے ملازمین کو ایک ماہ کی تنخواہ بھی چار سے پانچ ماہ کے بعد ادا کررہے تھے ۔یقین مانیں جب تنخواہیں ادا نہیں ہورہی تھیں اس دوران ،پیمرا،وزیراعظم سٹیزن پورٹل سیل ،لیبر کورٹ ہائی کورٹ تک بھی رجوع کیا جاتا رہا مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی ۔ہوتی بھی کیوں سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں۔
افسوسناک طور پر اس دوران کسی بھی صحافتی تنظیم کی جانب سے ان جبری برخاستگیوں ،تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف نہ کوئی احتجاج کیا گیا نہ ہی پریشر بلڈنگ کی گئی ۔سوائے ایمرا کے صدر آصف بٹ کے جو نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ ہر اس ادارے میں جاکر تالا بندی کی دھمکی دی جو تنخواہیں ادا نہیں کررہا تھا۔یہ جو تمام اینکرصاحبان اور ان کے ساتھ یہ عہدیدار موجود ہیں یہ اور ان کے حواریوں کو تو ہوا بھی نہیں لگی ،سیٹھوں نے ان کی تنخواہیں ہر مہینے ادا کیں نہ کٹوتیاں کی گئیں نہ ہی ان کے بندے نکالے گئے ۔اسی طرح اینکر صاحبان تو ویسے ہی لاکھوں روپے تنخواہیں لے رہے ہیں ساتھ ہی یوٹیوب چینلز ،ویب سائیٹس اور نجی کاروبار الگ کررہے ہیں ۔ان کا تو وہی حال ہے کہ نہ ہینگ لگی نہ پھٹکڑی ،بھئی رل تو عام ورکر صحافی گیا ،جو نہ ہی تنخواہ نہ ملنے پرآواز اٹھاسکتا نہ ہی اس کے ساتھ کوئی کھڑا ہوتا ۔تو پھر یہ آج کس منہ سے آزادی صحافت کی رٹ لگائی جارہی ہے ؟ارے بھیا اچھا ہے نہ اگر صحافتی اصولوں کے مطابق رپورٹنگ کریں گے توکونسی قیامت آجائے گی؟جعلی خبر چلانا کونسی صحافت ہوتی ہے؟ویسے بھی جس کی وجہ سے آپ کا چینل یا اخبار چل رہا ہوتا اگر اس کو تحفظ مل رہا ہوتو آپکو خوش ہونا چاہئیے ،رہی بات حکومتی کنٹرول کی تو ابھی کونساحکومتی کنٹرول نہیں ہے ؟کیا اخبارات میں حکومتی توصیف میں چھاپے جانے والے ایڈیشن اور خبریں کنٹرول کرنے کی مد میں نہیں شمارہوتیں؟ہاں بس یہ ہوتا کہ اس کا معاوضہ ادا کردیا جاتا ہے ۔اسی طرح کئی خبریں تو چینل نہیں چلا سکتے کیونکہ وزارت اطلاعات یا وزیراعظم ہاوس سے منع کردیا جاتا ہے ۔کئی دفعہ تو اپوزیشن کے خلاف خبروں کے لئے حکومتی عہدیداروںکی جانب سے خصوصی لائن دی جاتی ہے جس پر پھر تجزئیے بھی انہی کے کہے گئے تجزیہ کاروں کیلئے جاتے ہیں(یہ ہوائی باتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ادارے میں ذمہ دار پوزیشن پر ہونے اور اس گناہ میں حصہ ڈالنے کی وجہ سے میں پوری ذمہ داری سے یہ الفاظ لکھ رہاہوں) ۔پھر اتنا شور کیوں؟بھئی کنٹرولڈ تو آپ پہلے سے ہی ہیں ،ویسے بھی آپ ہی لوگوں نے پراپیگنڈا کے ذریعے پچھلی حکومتوں کو بدنام کرکے عمران خان کو حکومت دلوانے میں کردار ادا کیا تو اب بھگتیں ۔مجھے نہیں معلوم کہ یہ تحریر شائع ہوتی ہے یا نہیں ،مگرمیں واضح کرتا چلوں کہ یہ میری اور میرے ساتھ والے عام صحافی ورکروں کی آواز ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں