تحریر: مہر محمد حسنین ہراج |
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں گورنمنٹ ڈگری کالج میاں چنوں میں بارہویں جماعت کاطالبعلم تھاہمارے ایک پروفیسرصاحب جوکبھی ہمارے ساتھ غیررسمی گفتگوبھی کرلیاکرتے تھے۔ محب وطن ہونے کیوجہ سے آپ ملکی حالات وواقعات پرگہری نظررکھتے تھے بسااوقات توآپ بڑی عمیق اوردلچسپ گفتگوفرماتے اورایک دم کلاس روم میں سکتہ طاری ہوجاتاایک دن پروفیسرصاحب نے ملکی حالات پرتبصرہ کرتے ہوئے فرمایاکہ کسی سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں بلکہ ہم ہی اس ملک کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔یہ فرماکر کرنظریں ہم پرجماتے ہوئے چپ سادھ لی ،کلاس روم میں ایک تجسس اورحیرانگی کاماحول پیداہوگیا،تھوڑی دیربعدپھربولے بھلاایساکیوں کہاتب کمرے سے کچھ آوازیں بلندہوئیں سرآپ ہی وضاحت فرمائیں ہمیں نہیں معلوم، پروفیسرصاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے فرمایاکہ ہمارے ملک میں جب انتخابی مہم کااعلان ہوتاہے۔ان دنوں میں یہ قوم اندھی ہوجاتی ہے حکومت وقت کی تقریب حلف برداری کے بعدقوم کی نہ صرف بینائی لوٹ آتی ہے بلکہ ان حکمرانوں کے خلاف نفرت کااظہارہوتاہے جن کاچناؤہم نے کیاہوتاہے پھرانہیں ایک دن کیلئے بھی گوارانہیں کیاجاتا۔آپ نے بتایاکہ ہم ملک کے دشمن اس لئے ہیں کہ ووٹ جوقوم کی امانت کہلاتاہے وہ ہم ایماندارلوگوں کی بجائے خائن لوگوں کے حوالے کرتے ہیں۔پھروہ لوگ ذاتی مفادات کیوجہ سے اس ملک کے ساتھ سوتیلی ماں والا رویہ کھتے ہیں لہذااقتدارکی باگ ڈورووٹوں کے ذریعے ہم ہی ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھماتے ہیں، تب جاکرکہیں یہ بات ہماری سمجھ میں آئی کہ آپ درست فرمارہے ہیں یہ 1997ء کی بات ہے آج اس کوپورے 24سال بیت چکے ہیں۔اسی دوران پانچ مرتبہ قومی وصوبائی الیکشنزکاانعقادبھی ہوامگرہم نے اپنی وہ روش نہ بدلی جس کی طرف پروفیسرصاحب نے اشارہ کیاتھاپھر 2004ء میں مجھے ایک عالم دین جوعلمی فکری اورسیاسی طورپرباکمال شخصیت کے مالک تھے۔
ان کی تقریرسننے کوملی جوسیاسی تفکرپرمبنی تھی آپ نے ملک میں رائج نظام کوسخت تنقیدکانشانہ بناتے ہوئے اسے عوام دشمن قراردیا،بڑی تفصیلی گفتگوفرماتے ہوئے کہا کہ اس نظام کے ذریعے ہماراووٹ آزادنہیں بلکہ بندھاہواہے۔اوریہ نظام چندخاندانوں کی موروثی سیاست کوپروان چڑھاتا ہے جمہوریت کے لبادھے میں لپٹا یہ نظام جسے نظام جمہوریت کہاجاتاہے دھن دھونس دھاندلی کے ذریعے چندسیاستدانوں کی تابعداری پرمجبورکرتاہے یہی وجہ ہے کہ ہم نسل درنسل انہی لوگوں کاانتخاب کرتے چلے آرہے ہیں۔بات پروفیسرصاحب کی بھی درست تھی مگرسمجھ میں یہ نہیں آرہاتھاکہ جب ہم ووٹ کاسٹ کرنے میں آزادہیں توکس بات نے ہمیں پایہ زنجیرکررکھاہے جوباربارہماری سوچوں کامرکزمحوریہی لوگ ہیں توپتہ چلاکہ یہی وہ موجودہ فرسودہ نظام ہے جس نے ہمیں جکڑرکھاہے۔بہرحال اس عالم دین اورمدبرسیاستدان کی حکیمانہ تشخیص نے تودل کی گہرائیوں میں اترکرذہن کے بنددریچوں کوہی کھول دیااوراس بات کی سمجھ آگئی جس کامتلاشی میں عرصہ درازسے تھااس زمانے میں نظام کے خاتمے والی بات دانشوروں سمیت ہرکسی پر ناگوارگزری مگرآج وقت نے ثابت کردیاہرخاص وعام پریہ رازمنکشف ہوچکا کہ یہی وہ فرسودہ نظام ہے جوملک وملت کاحقیقی دشمن ہے۔اس کی رگ وپے میں عوامی خیرخواہی کاعنصرشامل ہی نہیں ہے،جوعوام کیلئے مسرتوں کاباعث بنے، پچھلی کئی دہائیوں سے حکمرانوں کی طرف سے مروجہ سیاست وجمہوریت کے ذریعے عوام پرغربت مہنگائی بے روزگاری اور ناانصافی کاجولاٹھی چارج ہورہاہے، اس ظلم کوبرداشت کرنے کی اب عوام میں مزید سکت نہیں رہی۔حق تلفی کایہ جوسلسلہ جاری ہے یہ کبھی تھمنے والا بھی نہیں بلکہ اس کی شدت میں آئے روز اضافہ ہوتاہی دکھائی دے گا۔
بالفرض تحریک انصاف کی حکومت سے عمران خان صاحب اور دیگر چند افراد کونکال دیں توباقی جوبچتاہے وہ مسلم لیگ ن اورپیپلزپارٹی ہے۔اگریہ سمجھاجائے کہ یہ حکومت بھی انہی دوجماعتوں کی ہے توبے جانہ ہوگا،الیکٹیبلزکایہ ایک ہی خاندان اورجتھہ ہے جوہردورمیں برسراقتدارجماعت کیساتھ نتھی ہوتا ہے۔موجودہ دورحکومت میں جن مسائل کاعوام کوسامناہے۔انہی مسائل کاسامناسابقہ دور حکومتوں میں بھی تھااب 2023ء کاالیکشن جیتنے کیلئے یہی لوگ ڈنڈبیٹھکیں نکال رہے ہیں جوکسی دوسری جماعت کے پلیٹ فارم سے منتخب ہو کر پھرپارلیمانی سیٹوں پربراجمان ہوجائیں گے۔ اورہم عوام سڑکوں پرہی گریہ کناں نظرآئیں گے۔ توثابت ہوااختلافی عمل شخصیتوں سے زیادہ اس فرسودہ نظام سے کرناچاہئے مسقبل کی سیاست میں ہوش کے ناخن لینے ہونگے الیکٹیبلزکے دفاع پرمستعدنظام کومستردکرتے ہوئے،ہمیں ایک نئے نظام کامطالبہ کرناہوگاتاکہ متوسط طبقے کے پڑھے لکھے نوجوان بھی اقتدارکاحصہ بن پائیں، قوموں پرزوال کے دن آتے جاتے رہتے ہیں آج جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں ان کے حالات ہم سے بھی زیادہ گھمبیرتھے مگران قوموں نے اپنے حقیقی لیڈر کی شناخت میں کوتاہی نہ برتی پھریکسو ہوکر ایک کٹھن جہدمسلسل کے ذریعے اس نظام کاخاتمہ کیاجس نے جینادوبھرکررکھاتھا۔ترقی وخوشحالی کا ایک نیانظام لا کرآج وہ دنیاکی طاقتورقومیں کہلاتی ہیں۔اب ہمیں اشرافیہ کے جھنڈے اٹھانے کی بجائے اپنے حقوق کیلئے اٹھناہوگا۔سیاسی موروثیت کاقلع قمع کرتے ہوئے ایک بہترین اورنئے نظام کی طرف راغب ہوناہوگاسیاست وجمہوریت کے اس جعلی نظام سے جان چھڑاناہوگی جوآئے روزہم پر ظلم وستم کے پہاڑڈھاتاہے ۔ذہنوں میں ایک سوال بھی ابھرتاہے کہ وہ کونسی تدبیراختیارکی جائے جومزیدتباہی سے بچاسکے تومیرے بھائیو 100مسئلوں کاایک ہی حل ہے اس نظام کے خلاف متحدہوکراٹھناہوگا،تبدیلی نظام کیلئے ڈٹ جاناہوگا،ایک ایسے لیڈرکی قیادت میں جمع ہوناہوگاجواقتدارکی بجائے اقدارکیلئے کوشاں ہو، ایک پرامن اورجمہوری طریقے سے تبدیلی نظام کے مطالبے کویقینی بنائے، بے شک عمران خان صاحب ایک ایماندارلیڈرہے۔مگراس کی سیاسی گتھی میں وہی دھاگے ہیں جوالجھاؤکامزاج رکھتے ہیں ،پہلے بھی انہی لوگوں نے اس ملک کابیڑہ غرق کیاہواہے۔اگرہم ان سے مزیدتوقعات رکھتے ہیں تویہ عمل اپنی اگلی نسلوں کوبھی ان کی غلامی میں دینے کے مترادف ہوگا، اللہ پاک ہم سب ک شعورآگہی عطافرمائے اورہمارے قلوب واذہان کوحق کیلئے منورکردے۔ آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں