استاد قوموں کے معمار - App Urdu News | Urdu News | Latest Urdu News

بریکنگ نیوز

استاد قوموں کے معمار

 

article-nadeem-khan

 تحریر: ندیم خان


5 اکتوبر کا دن ہر انسان کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے یہ دن اس عظیم ہستی کے نام ہے جسے استاد کے نام سے جانا جاتا ہے 1994ء میں دنیا نے اس بات کا ادراک کیا کہ جہاں ہم ہر سال مختلف دن مناتے ہیں وہاں اس عظیم ہستی کا دن بھی منایا جایا ،جس کے طفیل ایک انسان انسانیت کی معراج پر پہنچتا ہے اور پھر دنیا کو دیکھتے ہوئے 5 اکتوبر 2007ء سے پاکستان میں بھی ‘‘ سلام ٹیچرز ڈے ‘‘ کے طور پر یہ دن منایا جانے لگا اس دن کو منانے کا مقصد اساتذہ کی معاشرے میں اہمیت اور ان کے تقدس کو اجاگر کرنا ہے۔ انسان جب دنیا میں قدم رکھتا ہے تو اس کا واسطہ بہت سے لوگوں سے پڑتا ہے سب سے پہلے اس کا رشتہ والدین سے استوار ہوتا ہے، اس کے بعد اگلا تعلق استاد سے قائم ہوتا ہے اسی لیے استاد کو باپ کا درجہ بھی حاصل ہوتا ہے ،اگر دیکھا جائے تو استاد کا مقام اس کی حیثیت اور مرتبہ بہت اعلیٰ ہے کیونکہ ایک استاد ہی ہوتا ہے جو پتھر کو تراش کر اسے ہیرے کی شکل دیتا ہے، ایک استاد ہی ہے جو انسان کو بلندیوں تک پہنچاتا ہے ،استاد ایک بچے کی ہر طریقے سے پرورش کرتا ہے ،اسے ہر اس مقام کے لیے تیار کرتا ہے جس کا اس کے دل میں جذبہ ابھرتا یا بیدار ہوتا ہے، یہ استاد ہی ہے جو بچوں میں وطن پر مر مٹنے کا جذبہ پیدا کرتا ہے ،اسے علمی و عملی میدان میں مکمل طور پر تیار کرتا ہے اس کی فنی سائنسی اور روحانی تربیت کرتا ہے ۔دنیا میں جو بھی بڑے اور نامور لوگ گزرے اپنے استاد کا دل سے احترام کرتے تھے، خلیفہ ہارون الرشید کے بہت سے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں جن میں انہوں نے استاد کو اعلیٰ مقام سے نوازا۔ حضرت علی ؑنے تو یہاں تک کہ دیا کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھایا میں اس کا غلام ہوا چاہے وہ مجھے بیچے یا آزاد کرے یا غلام بنائے رکھے۔ سکندر اعظم بھی اپنے اساتذہ کا بہت ادب و احترام کرتے تھے کسی نے وجہ پوچھی تو تاریخی جواب دیا کہ میرے والدین مجھے آسمان سے زمین پر لانے کا زریعہ ہیں، جبکہ میرا استاد مجھے پھر آسمان پر لے گیا میرا باپ حیات فانی ہے اور استاد حیات جاودانی ہے ،میرا باپ میرے جسم کی پرورش کرتا ہے اور میرا استاد میری روح کی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کوئی معاشرہ استاد کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا ۔ترقی یافتہ ممالک میں استاد کو نمایاں مقام حاصل ہے اور کچھ ممالک میں تو استاد کو ججز، افواج اور سیاستدانوں سے بھی بہتر مقام میسر ہے۔ راقم الحروف کو آج بھی اپنی طالب علمی کا زمانہ یاد ہے وہ زندگی کا خوشگوار دور تھا اس زمانے میں اسکول دور دور ہوتے تھے۔ طالب علم حصول علم کے لیے میلوں کا سفر طے کر کے علم کی پیاس بجھاتے تھے۔ استادوں کی مار کھاتے تھے۔ ڈانٹ ڈپٹ برداشت کرتے اور سزائیں جھیلتے تھے ،تب جا کر نگینے کی صورت اختیار کرتے تھے ،اس دور کے طالب علم بڑے با ادب اور باتمیز ہوتے تھے ۔اساتذہ کی دل سے قدر کرتے تھے ہمیشہ ان کے قدموں میں بیٹھتے ویسے بھی وہ دور ٹاٹ کا دور تھا۔ کلاس کا منظر بڑا دلکش ہوا کرتا تھا صرف ایک ہی کرسی استاد محترم کی ہوتی تھی باقی سب بچے نیچے ٹاٹ پر بیٹھے ہوتے تھے اس وقت تمام بچے اپنے استاد کی بات خاموشی سے سنتے اور نظریں جھکا کر رکھتے وہ بھی کیا وقت تھا ابھی اتنی ترقی نہیں ہوئی تھی لیکن اس دور میں خلوص محبت اور اپنے فرض کی بجا آوری اتنی تھی کہ استاد شام کو بازاروں کا رخ کرتے چیک کرتے کہ کوئی طالب علم بازار میں بلاوجہ تو نہیں گھوم رہا ،کسی چائے کے ہوٹل پر تو نہیں بیٹھا ،کسی کے فلم کی دکان یا وڈیو سینٹر پر تو موجود نہیں یہی وجہ تھی اس وقت بچے بازاروں میں نظر نہیں آتے تھے ،پھر زمانہ ترقی کر گیا ٹاٹ سے ڈیسک بینچ اور کرسیاں آ گئیں ‘‘ مار نہیں پیار ‘‘ کا سلو گن آ گیا اور اس ترقی میں استاد کا حقیقی مقام بھی کہیں غائب ہو گیا ۔میں آج بھی اپنے اساتذہ کو یاد کرتا رہتا ہوں ان کے لیے دعائیں مانگتا رہتا ہوں، مجھے اپنے اساتذہ سر نسیم شاہد سر محمد اختر سر راؤ محمد حنیف سر محمد ہاشم سر عبدالرزاق سر شریف اشرف اور سر مقبول بہت یاد آتے ہیں ۔ٹیچرز ڈے کے عالمی دن کے موقع پر میں اپنے اساتذہ کو دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور ان کی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ میں کچھ بھی نہ تھا میرے انہی اساتذہ نے مجھے کیا سے کیا بنا دیا ،انہی اساتذہ نے مجھے خزاؤں میں بھی بہار جیسا نکھار دیا تھا،میں جب کبھی بھی منتشر ہونے لگتا میرے یہ اساتذہ مجھے بکھرنے سے بچا لیتے میں جب کبھی ٹھوکر کھاتا یہ مجھے فوراْ سنبھال لیتے۔ مجھے زندگی میں جس نے بھی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی تو میں پورا اترا کیونکہ میرے انہی اساتذہ نے مجھے اعلیٰ معیار دیا تھا ۔میں جہاں بھی گیا پاک بحریہ میں خدمات انجام دیں وہاں سے ڈیپو ٹیشن پر سلطنت آف عمان گیا اور تین سال وہاں رہا اور ہر جگہ سر اٹھا کر رہا کیونکہ میرے انہی اساتذہ کرام نے میرے اندر بلا کا اعتماد اور وقار قائم کیا تھا، انہی اساتذہ نے میری نگاہوں میں برقی چمک پیدا کی۔ میرے خیالات کو بلندی عطا کی میرے اساتذہ نے میرے اندر ایک ولولہ پیدا کیا اور مجھ میں اپنی منزل کا راستہ خود تلاش کرنے کی جستجو پیدا کی میرے حوصلوں کو تقویت بخشی اپنے اساتذہ کرام کے ساتھ گزرا ہوا وہ وقت آج بھی میرے لیے سرمایہ افتخار ہے۔ میری زندگی کا اہم اثاثہ ہے میرے یہ اساتذہ میرے لیے آج بھی اتنے ہی محترم ہیں جتنے اس دور میں تھے میں نے جو کچھ بھی سیکھا انہی سے دیکھا ان کی باتیں ان کی نصیحتیں آج بھی میرے دل و دماغ پر نقش ہیں۔ وہ واقعی سچے لوگ اور اچھے لوگ تھے ،مخلص لوگ تھے ،آج بھی جب میں ان سے ملتا ہوں تو نظریں جھکی ہی رہتی ہیں میں انہیں دیکھ کر چہکنے لگتا ہوں میرے یہ استاد میرا گلستاں ہیں اے میرے پیارے اساتذہ کرام میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے میں آپ کو خراج تحسین پیش کر سکوں ،صرف اتنا کہوں گا کہ اے میرے پیارے اساتذہ کرام تمہیں سلام 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں