تحریر: خورشید ندیم |
فرقہ واریت ایک موضوعی(subjective) اصطلاح ہے۔قیامِ پاکستان سے پہلے ہندو مسلم تصادم کوفرقہ وارانہ فسادات کہا جاتا تھا۔اخبارات میں ان واقعات کواسی پیرائے میں بیان کیا جا تا تھا۔گویا ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فرقے ہیں۔پاکستان بننے کے بعد یہی اصطلاح مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے مابین ہونے والے جھگڑوں کے لیے استعمال ہونے لگی۔ اب سنی اور شیعہ فرقے قرار پائے۔یہی معاملہ مسیحی معاشروں کا بھی ہے۔ ہم اگراس موضوع کو پاکستان اور مسلم سماج کے پس منظر میں رکھ کر دیکھیں تواس سے عام طور پروہ مذہبی گروہ مراد لیے جاتے ہیں جو خود کو مسلمان کہتے،مبادیات میں اتفاق رکھتے لیکن تعبیر اورتاریخ کے حوالے سے ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں۔تاہم یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بظاہر ماخذ اور تعبیر میں پائی جانے والی یکسانیت کے باوجود، چند فروعی اختلافات سے ایسا بْعدوجود میں آ جا تا ہے،جومختلف گروہوں کی تشکیل کا باعث بنتا ہے۔عام طور پر اس اختلاف کو بھی فرقہ واریت کہہ دیا جا تا ہے۔ اس لیے ایک متوازن معاشرے کی تعمیر کے لیے ان مباحث کو درست تناظر میں سمجھنا ضروری ہے۔اختلاف ایک زندہ معاشرے کی علامت اور فطری ہے۔انسانوں کی حیاتیاتی ساخت ( Biological Construct) یکساں ہونے کے باوجود،ان کے فکری اور ذہنی رجحانات یکساں نہیں ہوتے۔ یہی عدم یکسانیت مختلف خیالات کو جنم دیتی ہے۔یہ خیالات نظام ہائے فکر میں ڈھلتے اور نظری تنوع کا سبب بنتے ہیں۔یہی تنوع علم کی دنیا کا جمال ہے۔مفتی محمد شفیع صاحب نے اپنے رسالے ''وحدتِ امت'' میں لکھا ہے کہ ایک معاشرے میں اگر لوگ اختلاف نہیں کرتے تواس کے دو سبب ہو سکتے ہیں۔ایک یہ کہ سب کے سب غبی ہیں اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔دوسرا سبب یہ ہو سکتا ہے کہ سب مفاد پرست ہیں جو اس وجہ سے اختلاف نہیں کرتے کہ کہیں اس کے نتیجے میں کسی مفاد سے محروم نہ کر دیے جائیں۔اگر یہ دو اسباب موجود نہیں تو پھر اختلاف فطری ہے۔انسانی سماج کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اختلاف کا ایک سبب تو فطری ہے جو غور وفکر کی انسانی صلاحیت کا اظہار ہے۔انسانوں میں اختلاف کا ایک دوسرا سبب بھی ہے جو سیاسی،معاشی اور سماجی مفادات کی بنیاد پر جنم لیتا ہے۔سماج میں مختلف اسباب کی بنا پر کچھ افراد کے مفادات یکساں ہو جاتے ہیں۔یہ مفادات کسی دوسرے گروہ کے مفادات سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں۔یوں ان مفاداتی گروہوں میں مفادات کا تصادم وجود میں آتا ہے۔
مسلم تاریخ میں مذہب کے نام پر دونوں طرح کے اختلافات ہوئے۔پہلا سبب فطری تھا،جس سے مختلف مکاتبِ فکر یا مسالک وجود میں آئے۔اس نے مسلم علمی روایت کو جلابخشی اوراس امت کی تاریخ میں جلیل القدر علماا ور ماہرینِ فنون پیدا ہوئے۔امتِ مسلمہ میں ہمیشہ قرآن مجید اور سنت کو دین کا ماخذ مانا گیا۔جب لوگوں نے دونوں پر غور کیا اوراپنی تفہیم کا اطلاق حالات پر کیا تو ایک سے زیادہ آرا اورنتائجِ فکر سامنے آئے۔جب کسی بڑی علمی شخصیت نے ایک رائے اختیار کی اور اس کاابلاغِ عام ہواتو اس سے اتفاق رکھنے والوں کا ایک گروہ پیدا ہوا۔یہ اتفاق جب ایک بڑے گروہ تک پھیلا تو ایک فقہی مسلک میں ڈھل گیا۔مثال کے طور پر امام ابو حنیفہ نے جب قرآن وسنت پر غور کیا تواس مقصد کیلئے ایک منہج (methodology) اپنایا۔یہ منہج بعد میں استنباطِ احکام کے لیے ایک باضابطہ اور منفردعلم کی صورت اختیارکر گیا جس سے فقہ حنفی وجود میں آیا۔ اسی طرح امام مالک نے ایک منہج اختیارکیا جس نے پھرایک دوسرے فقہی مسلک کی صورت اختیار کر لی۔یوں کئی فقہی مسالک وجود میں آئے۔اس اختلاف کو فطری سمجھ کر قبول کیاگیا اوراختلاف کے باوجود دوسروں کو تعبیرکا حق دیا گیا۔ان بزرگوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا لیکن باہمی احترام میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔اپنے متاثرین کو بھی اس بات سے روکا کہ وہ دوسرے کی توہین کے مرتکب ہوں۔ان کے مابین استاد شاگرد کا تعلق بھی قائم رہا۔مثال کے طور پر امام شافعی نے امام مالک سے ان کی کتاب 'موطا' پڑھی اور امام احمد ابن حنبل امام شافعی کے شاگرد تھے۔وہ ان کے گھوڑے کی باگ تھامنا اپنے لیے باعثِ اعزاز سمجھتے تھے۔یہ بزرگ تین مختلف فقہی مسالک کے بانی ہیں۔ اختلاف کا دوسراسبب سیاسی تھا۔اس کا آغاز حقِ اقتدار کے مسئلے پر اختلاف سے ہوا۔مسلم تاریخ میں پیش آنے والے چند اہم اور افسوس ناک واقعات نے اس اختلاف کو تقویت پہنچائی۔بعد کے ادوار میں، سیاسی اختلافات کی بنیاد پرقائم ہونے والے گروہوں نے جب اپنے مقدمے کو مذہبی استدلال کی بنیاد پر مرتب کیا تو سیاسی گروہ، مذہبی گروہوں میں ڈھل گئے۔اس سے فرقہ واریت وجود میں آئی۔
تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ مسلکی اختلاف سماجی اور علمی ارتقا کا باعث بنا۔یہ اپنی بنیاد میں ایک مثبت اور تعمیری عمل تھا۔اس سے فکرِ اسلامی کا جوہر سامنے آیا۔اجتہاد جیسا متحرک تصور پیدا ہوا اور مسلم سماج نے ہر دور میں حالات اور مذہب کے مابین تطبیق پیدا کی اور یوں اپنے مذہبی تشخص کو برقرار رکھا۔اجتہاد نے اس مفروضے کو رد کر دیا کہ عقل مذہب کے مقابلے میں کوئی متبادل ذریعہ علم ہے۔اجتہاد کے باعث مذہب کی عقلی تاویلات کا دروازہ کھلا اورمذہب ایک قابل ِ عمل تصور حیات(worldview) کے طور پر سامنے آیا۔اگر تفہیم اور تعبیر کے باب میں اختلاف نہ ہوتا تو یہ روایت آگے نہ بڑھ سکتی۔اس کے برخلاف فرقہ واریت سے نقصان ہوا۔ امت کئی گروہوں میں تقسیم ہوگئی جن کے مابین مفادات کا ٹکراؤ ہوا اور ان کی قوت باہمی مناکشات کی نذر ہوگئی۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔بدقسمتی سے مسلکی اختلاف بھی اْس وقت تقسیم کا باعث بنا جب مسلک کو بھی ایک مفاداتی گروہ کی طرز پر منظم کر نے کی کوشش کی گئی۔یہ حادثہ تب ہوا جب مسلکی قیادت علما کے بجائے نااہل لوگوں کو منتقل ہوگئی جو علمی سرگرمی پر شخصی مفادات کو ترجیح دینے لگے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ کیا فرقہ واریت اور مسلکی تعصبات سے بلند ہو سکتاہے؟کیا کوئی ایسا لائحہ عمل تجویز کیا جا سکتا ہے جو ان اختلافات کی موجودگی میں ایک متوازن معاشرے کی تشکیل میں مددگار ہو؟میرے نزدیک اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔دنیا میں بہت سے معاشرے ہیں جہاں مذہب سے لے کر سیاست تک ،لوگ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں۔ان کااختلاف کسی معاشرتی اضطراب کا باعث نہیں بنتا۔جو کام دیگر معاشروں میں ممکن ہے،وہ ہمارے ہاں بھی ممکن ہے۔اس باب میں یہ بات بطور مقدمہ سمجھنی چاہیے کہ اختلاف کو ختم کرنے کی خواہش غیر فطری ہے اور اس کے پورا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔اللہ تعالیٰ نے یہ بات قرآن مجید میں ایک سے زیادہ بار واضح کی ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو ساری دنیا کو ایک امت بنا سکتا تھا۔اس نے اگر ایسا نہیں کیا تو اختلاف کو ایک الہی سکیم سمجھنا چاہیے۔ہماری کاوش کا میدان اختلاف کو ختم کرنا نہیں، بلکہ یہ سوال ہونا چاہیے کہ اختلاف کی موجودگی میں کیسے باہمی احترام اور بھائی چارے کے ساتھ رہا جا سکتا ہے؟
یہ بات اگر سامنے رہے تو،ایک پرامن اور متوازن معاشرے کی تشکیل کے لیے درج ذیل خطوط پر مشتمل لائحہ عمل اختیار کیا جا سکتا ہے:
1۔مسلمانوں کے مابین اِس وقت دو بڑے فرقے ہیں:سنی اور شیعہ۔جو اختلاف اس فرقہ بندی کا باعث ہے،اس کا تعلق ماضی سے ہے۔گویا وہ تاریخ کا ایک موضوع ہے۔ لمحہ موجود سے اس کا کوئی براہ راست تعلق نہیں۔گویا آج سے متعلق کوئی ایسا اختلاف نہیں جو دونوں کے ایک ساتھ رہنے میں مانع ہو۔اس کا عملی ثبوت خودہمارا معاشرہ ہے۔ یہاں شیعہ اورسنی اپنے اپنے خیالات کے ساتھ ایک ساتھ رہتے رہے ہیں اور ان کا اختلاف پرامن معاشرے کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوا۔
2۔مسلمانوں کے کسی فرقے کے نزدیک آج ریاست کا کوئی ایسا ماڈل موجود نہیں ہے جو الہامی ہو۔ یعنی کسی کے حقِ اقتدار کے لیے کوئی مذہبی سند مو جود نہیں۔اس لیے سب اس بات کے قائل ہیں کہ مسلمانوں کا جو سیاسی نظم بنے گا،وہ مشاورت اور جمہوریت کے اصول پر بنے گا۔اللہ کے حکموں کو جاننے کے لیے کسی خاص فرد یا ادارے کی طرف نہیں بلکہ قرآن وسنت کی طرف رجوع کیا جا ئے گا۔علما سے بھی اس لیے رجوع کیا جا تا ہے کہ ان سے قرآن وسنت کا مدعا سمجھا جا ئے۔
3۔پاکستان میں اسی بنیاد پر 1973 ء کا آئین بنا۔اس سے پہلے تمام فرقوں پر مشتمل علما نے متفقہ طور پر بائیس نکات ترتیب دیے جو سیاسی نظام کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ اسی حوالے سے وقتاً فوقتاً مختلف دستاویزات سامنے آتی رہی ہیں۔اس ضمن میں 2016 ء میں بھی ایک دستاویز پر علما متفق ہوئے جسے ''پیغام ِ پاکستان'' کا نام دیا گیا۔ان سب کو فرقہ وارانہ ا ختلاف کے حل کے لیے بنیاد بنایاجا سکتا ہے۔
4۔اسلامی نظریاتی کونسل کے نام سے ہمارے پاس ایک آئینی ادارہ موجود ہے۔وہ دینی امور میں حکومت کی مشاورت کے لیے قائم کیا گیا۔اس کی سفارشات کو قانون سازی کی بنیاد مان کر مذہبی اختلافات کو طے کیا جا سکتا ہے۔
5۔ اختلافی معاملات کو علمی مجالس اور فورمز تک محدود کر کے ایک متوازن معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ،اختلافات کو علمی زبان میں اور شائستگی کے ساتھ بیان کر نے کے لیے سماجی سطح پر مہم چلانی چاہیے جس میں ایسے رویوں کے مضر اثرات کو نمایاں کیا جا ئے جو غیر شائستگی پر مبنی ہوتے ہیں۔
6۔مسالک کو اس جانب متوجہ کیا جائے کہ ان کی قیادت جید علماء کے ہاتھ میں رہے۔اس سے وہ علمی روایت آگے بڑھے گی جو مسلمانوں کی قابلِ فخرمیراث ہے۔مذہبی مسالک کی قیادت اگر پست فکر افراد کے ہاتھ میں ہوگی تواس کا لازمی نتیجہ فساد ہو گا۔
7۔مکالمے کا عمومی کلچر پیدا کیا جائے۔ہمارے ہاں دینی مدارس چونکہ مسلکی بنیادوں پر قائم ہیں،اس لیے ضرورت ہے کہ بین المسالک روابط کو مضبوط کیا جائے۔اس کے لیے ایک لائحہ عمل مرتب کیا جا سکتا ہے۔مثال کے طور پرآج امریکہ اور دیگر ممالک کے مابین 'فل برائٹ پروگرام' کے عنوان سے تحقیق وتعلم کے میدان میں تعاون کاایک پروگرام جاری ہے جس کے تحت ایک یونیورسٹی کا استاد،طلبا اور طالبات دوسرے ملک کی یونیورسٹیوں میں تدریس،تحقیق اورتعلیم کے لیے جاتے ہیں۔اس سے ایک دوسرے کو سمجھنا آسان ہو جا تا ہے۔اس طریقے کو مدارس کے لیے بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ ثقافتی تنوع کا مظہر ہے۔اس تنوع نے اسے ایک گلدستے کی صورت دے دی ہے جس کی رنگا رنگی اس کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔اسی طرح اگر مذہبی اختلاف کو مثبت نظر سے دیکھا جائے تو یہاں کا مذہبی تنوع پورے عالمِ اسلام کے لیے مثال بن سکتا ہے۔یہاں یہ امکان موجود ہے کہ مختلف مسالک اور فرقوں کے جدید علماء پیدا ہوں جن نے ساری دنیا مستفید ہو۔یوں ہم اس عظمتِ رفتہ کو زندہ کر سکتے ہیں جب علمی اختلاف ہماری کمزوری نہیں،قوت تھا۔
(بشکریہ ھلال،آئی ایس پی آر)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں