تحریر: عمران محمود |
نبی پاکﷺ کی ہستی کا ذکر اللہ بلند کررہا ہے۔ عرش و فرش پر میرے حضور ؐ کے چرچے ہیں۔شجر و حجر آپ ؐکی خدمت ِاقدس میں درود و سلام پیش کرکے نکہت ِ بہشت سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ انسان تو انسان،جانورتک آپؐ کے پاس اپنی فریادیں لے کر آتے اورآپؐ سب کی فریادوں کو سن کر مسائل کو حل فرماتے۔ زندہ و بے جان پر آپ ؐ کی نبوت جاری ہے۔ آپ ؐ کا اشارہ پا کر مردہ گو، زندہ ہو جاتی ہے اور آپ ؐکی رسالت کی گواہی دیتی ہے۔ شجراللہ کی اجازت سے اپنی جگہ سے چل کر آتے ہیں، آپؐ کا دیدار کر کے پھر وآپس اپنی جگہ چلے جاتے ہیں۔ آپؐ کے پسینے سے مشک و عنبر سے بڑھ کر خوبصورت خوشبو آتی تھی۔ جیسے آپؐ سامنے دیکھتے،ویسے ہی پیچھے دیکھتے۔ حالتِ نماز میں بھی آپؐ جنت اور جہنم کا مشاہدہ کرتے اور جنت کے پھلوں کوپکڑتے۔ آپؐ کے مبارک چہرے کی نورانیت سے درودیوار روشن ہو جاتے۔ آپؐ کو دیکھنے سے جی نہیں بھرتا تھااور طلبِ دیدارمیں شدت آتی تھی۔ آپؐ کی ذات تمام مخلوقات میں سب سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بعد آپؐ ہی کی ہستی سب سے بزرگ و برتر ہستی ہے۔ آپؐ کی حفاظت کے لیئے صحابہ کرامؓ سیسہ پلائی دیوار بن جاتے اور دشمنوں کو آپؐ تک پہنچنے نہیں دیتے۔ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کی حفاظت اور آپؐ کی محبت کے لیئے دشمنوں کو نیست و نابود کیا اور اپنی جانیں قربان کیں۔حضور پاکؐ نے عرش پر اپنے محب اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا۔ محب اور محبوب کے درمیان راز کی باتیں ہوئیں۔ محب اور محبوب کے عشق کی انتہا، محب اور محبوب ہی جانیں، ہم سب اس کا ادراک کرنے سے قاصر و عاجز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ؐ سے اس قدر عشق کیا کہ آپؐ کی زلفوں کی قسم کھاتا ہے، آپؐ کے چہرے کی قسم کھاتا ہے، آپ ؐ کے شہر اور حجرہ مبارک کی قسم کھاتا ہے۔ اللہ نے اپنے حبیبؐ کے ساتھ عشق کی انتہا کی۔ نبی پاکؐ نے خود فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ''کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کو اس کے ماں باپ، بہن بھائی اولاد اور حتیٰ کے دنیا کی ہر چیز سے زیاد محبوب نہ ہو جاؤں ''۔ مسلمانوں کی زندگی کا سب سے اہم مقصد بلکہ فرض عظیم ہے کہ آپؐ کو سب سے بڑھ کر محبوب جانیں اور آپؐ کی پاکیزہ زندگی میں ڈھل جائیں۔ یعنی آسان لفظوں میں نبی کریم ﷺ سے محبت کرنا فرائض سے بھی بالا عمل وعظیم فرض ہے۔ باقی فرائض کا حساب اس کے بعد آتا ہے اور ان کی قبولیت بھی اسی اولین فرض کی تکمیل سے مشروط ہیں۔ جو بھی نبی پاک ؐ سے محبت کا رشتہ قائم رکھتے ہیں وہ ہمیشہ کے لیئے امر ہو جاتے ہیں۔ایسے بندوں کو ہر زمانے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا اور جانا جاتا ہے۔ ایسے بزرگوں کی یاد اور محبت کی داستان کوئی ختم نہیں کر سکتا۔ ایسے بزرگوں کی قبر بھی نازاں ہو تی ہے کہ اللہ کے حبیبؐ کا عاشق آگیا۔ اس بزرگ کا جسدبھی ہمشہ تازہ رہتا ہے اور کفن بھی۔یہ بات محبت اور سمجھ والوں کے لیئے ہے۔ جس نے بھی نبی کریم ؐ کی غلامی کی وہی باقی ہے اس کے علاوہ سب فنا۔جس نے آپ ؐ کی حقیقی پیروی کی اور آپ ؐ سے عشق کیا وہ صحابی ؓ بن گیا، کوئی ولی بن گیا، کوئی فقیر بن گیااور کوئی درویش۔ کسی کو دنیا صوفی کہنے لگی اور کسی کو شیخ۔
اپریل 2021ء میں لاہور میں بہت دردناک مناظر دیکھنے میں آئے جس میں پنجاب پولیس اور تحریک لبیک پاکستان کے کارکنان کے درمیان میدانِ جنگ بنا رہا۔ اس میں متعدد لوگ لقمہِ اجل بنے۔دل بہت اداس ہوا۔ ملک کا کروڑوں اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ اتنی املاک ضائع ہوئیں، گاڑیاں جلائی گئیں۔یہ کسی بھی صورت ہمارے وطن کے مفاد میں نہیں۔ایسے حالات میں حکومت کی ذمہ داری اور کردار زیادہ بنتا ہے کیونکہ حکومت کے پاس مشینری، طاقت اور اسباب ہوتے ہیں۔احتجاج کرنے والوں کوبھی اپنے اداروں پر حملوں سے گریز کرنا چاہیئے اور پولیس کو بھی سرعام مسلمانوں پر گولیاں چلانے کی اجاز ت ہرگز نہیں دی جانی چاہیئے۔ گولی دشمن کے لیئے ہے مسلمانوں کے لیئے نہیں۔حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف اپنے کیئے گئے وعدوں کی پاسداری کرنا چاہیئے بلکہ اس سنجیدہ مسئلے کے لیئے خود انتہائی اقدام اٹھانا چاہیئں۔ بلاوجہ کوتاہیوں کی وجہ سے یہ المناک واقعہ رونما ہوا اور تاریخ میں یہ سیاہ ترین واقعات میں سے ایک واقعہ لکھا جائے گا۔اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ چونکہ اس قسم کے واقعات میں سارا نظام مفلوج ہو جاتا ہے اس لیئے کچھ شر پسند لوگوں کو فائدہ اٹھانے کا بھرپورموقعہ مل جاتا ہے۔نقصان پاکستان کا ہوا۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ ہم 73سال میں بھی یہ معاملات نہیں سمجھ سکے۔ ہمیں اپنوں اور غیروں کی پہچان نہیں ہوئی۔ بلاشبہ یہ ہماری کم اہلی کا ثبوت ہے کہ اتنے سال گزرنے کے بعد بھی ہم امت نہیں بن سکے، ہم جڑ نہیں سکے۔ا س درناک واقعے کا پس ِ منظرنبی پاکؐ کے گستاخانہ خاکے تھے جو فرانس کے ایک ملعون گستاخ نے بنائے تھے اور فرانس حکومت نے اس ملعون کی حمایت کی۔ بجائے اس کے کہ فرانس حکومت اپنے ملعون گستاخ کے ناپاک عمل کو روکتی، الٹا اس کی تشہیر کی گئی۔ اس سے مسلمانوں کے جذبات کوشدید ٹھیس پہنچی اور ان میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی کیونکہ مسلمانوں کے لیئے سب سے عزیز ہستی نبی کریم ؐ کی ہستی ہیں۔ آپ ؐ کی گستاخی کسی صورت بھی برداشت نہیں کی جا سکتی۔
آزادی سب کا حق ہے، لیکن آزادی کی آڑ میں کسی مذہب کی مقدس ہستیوں کی گستاخی کی ہرگز بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کوئی ایک ملعون گستاخ وہاں یورپ میں بیٹھ کر گستاخی کر دیتا ہے اور ہم مسلمان یہاں آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ مسلمانوں کے لیئے ناموسِ رسالت زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ ہمیں اس مسئلہ کو نہایت سنجیدگی اور سمجھداری کے ساتھ حل کرنا چاہیئے۔ یہ نازک اور حساس معاملہ ہے۔ اس پوری تحریک میں مسلمان ممالک بھی اس طرح میدانِ عمل میں نہیں آئے جس طرح آنا چاہیے۔ 50سے زیادہ اسلامی ممالک ہیں سب کو مل کر اس سنجیدہ اور حساس مسئلے کے لیئے آواز اٹھانی چاہیئے اور احتجاج کرنا چاہیئے کہ ایسی حرکتوں سے باز آیا جائے، اس سلسلے میں مناسب قانون سازی کی جائے اور مسلمانوں کی عظیم ہستیوں کی گستاخی کرنے والوں کو سخت اور عبرتناک سزائیں دی جائیں۔ ہمارے پر امن ہونے کو ہماری کمزوری ہرگز بھی نہ سمجھا جائے۔ ہم مسلمان امن کے داعی ہیں اور کسی مذہب کی بڑی ہستی تو کیا چھوٹوں کی گستاخی کا بھی نہیں سوچ سکتے۔لیکن اگر گستاخیوں کا سلسلہ نہ رکا تو مسلمان اپنی بزرگ ہستیوں کی ناموس کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔تمام مسلمان ممالک متحد ہو کر اقوام متحدہ، اسلامی سربراہی کانفرنس اور دیگر فورمز پر اس مسئلے کو کروفر کے ساتھ بیان کریں۔ مسئلہ ضرور حل ہو گا۔ ایسے ناپاک واقعات کے بعد سب علماء کرام کو مذمتی پیغامات ریکارڈ کروا کے میڈیا پر دکھانے چاہیے تا کہ دنیا کو پتہ چلے کہ سب مسلمان متحد ہیں۔ پر امن احتجاج ریکارڈ کروائے جائیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں نہ تو علماء متحد دیکھے، نہ سیاست دان، نہ ادارے اور نہ ہی عام پبلک۔ مشہور نعت خوان حضرات بھی پس ِ منظر سے غائب رہے۔ دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اور افسوس ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کے سب سے اہم مسئلے پر بھی اکٹھے نہیں ہو پا رہے۔ ٹی وی علما ء اور ٹی وی نعت خوان جو نبی پاک ؐ کے نام پر لاکھوں روپے کما رہے ہیں، ان کو بھی ایسے واقعات کی شدید مذمت کرنی چاہیئے۔صرف ایک جماعت کے نکلنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا۔اوریہ کسی ایک جماعت کا مسئلہ ہے بھی نہیں یہ پوری امتِ مسلمہ کا اجتماعی اور اہم ترین مسئلہ ہے۔ حکومت کے ساتھ تمام جماعتوں اور علماء کو مل بیٹھ کر باہمی مشورے سے، افہام و تفہیم اور خوش اخلاقی کے ساتھ اس مسئلہ کامستقل حل نکالنا ہے۔ورنہ ایسے واقعات آئے دن ہوتے رہیں گے۔ مغرب اور یورپ کو لگام ڈالنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ بہت حساس مسئلہ ہے، بہت زیادہ حساس معاملہ ہے، بہت زیادہ،جس کے اثرات بہت دیر تک رہتے ہیں اور خطرناک نتائج برپا ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں ہر بندہ عاشقِ رسول ؐ ہے، لیکن عشقِ رسول ؐ تو دور کی بات ہم تو حبِ رسولؐ کے تقاضے بھی نہیں پورے کر سکتے۔ عشق قربانیاں مانگتا ہے، جان مانگتا ہے۔عشق میں سب کچھ لٹانا پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ حضورؐ کی سیرت پر عمل کرتے ہیں؟ جب ہم خود ہی حضورؐ کی سیرت پر عمل نہیں کرتے تو ہم دوسروں کو کیسے آپ ؐ کی شان کے بارے میں آگاہی دے سکتے ہیں؟حضورؐ کی شان میں گستاخی جیسے دلخراش واقعات سے نبٹنے اور حبِ رسول ؐ حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے نبی کریمﷺ کی سیرت کو پڑھیں۔ آپ ؐ کی سیرت پرلازمی عمل کریں۔کثرت سے درود و سلام کا اہتما م کریں۔ حضورؐ کا ذکر ہر پل کریں، ہر جگہ، ہر محفل میں۔گلی گلی، نگر نگر، گاؤ ں گاؤں، شہر شہر، دیس دیس،ہر سمت اور ہر جگہ آپ ؐ کی شان کو بیان کیا جائے۔محافل، میلاد، مجالس اور سیرت کانفرنسز کا باقاعدہ انعقاد کیا جائے۔ دنیا جب میرے کریم آقاؐ کی شان سمجھے گی تو ایسے واقعات کرنے سے گریز کرے گی۔ ویسے بھی ہمارے پیارے آقا ؐ دنیا کے ہر مذہب کے ماننے والوں کے لیئے عظیم ہستی تصور کیئے جاتے ہیں۔ کچھ شر پسند لوگ تو ہر مذہب میں موجود ہیں۔ ان کو طریقے اور سمجھداری سے ایسے واقعات سے روکنے کے لیئے حکمت عملی اپنانی ہو گی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ؐ کا ذکر بلند کیا، ہمیں بھی اللہ کی سنت پر عمل کرنا ہے۔ یوں حب ِ نبیؐ مل جاتی ہے۔ورنہ زبانی کھوکھلے دعوؤں اور بازار سے یہ حب ِ نبی ﷺ ہر گز بھی نہیں خریدی جا سکتی۔ اس محبت کے حصول کے لیئے حضورؐ کی غلامی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ جس کو آپ ؐ کی محبت مل گئی، اس کا کام بن گیا۔اور ایک بات مسلمانوں کے لیئے بہت سمجھنے والی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ ''اے نبی پاکؐ بے شک آپ ؐ کا دشمن ہی بے نام و نشان رہے گا''۔ یعنی ملعونِ فرانس و دیگر ایسے افراد کو لازماََ زندگی کے کسی نہ کسے مرحلے پر عبرتناک انجام کا سامنا کرنا ہے۔ ویسے بھی سب نے مٹ جانا ہے صرف اللہ اور اس کا حبیب ؐ ہمیشہ رہیں گے۔ ہر جگہ اللہ نے اپنے حبیبؐ کو اپنے ساتھ رکھا، کلمے میں، اذان میں، نماز میں، درودوں میں، دعاؤں میں۔ کوئی بھی عبادت آپؐ کی یاد کے بغیر مکمل نہیں۔ قیامت تک یہ سلسہ جاری رہے گا۔ہم معیشت کا رونا روتے ہیں۔ حضورؐ کی پیروی سے دنیا و آخرت کی کامیابیاں ہیں،معیشت تو بہت چھوٹا مسئلہ ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں