تحریر: ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی |
ماضی قریب میں مرد کیلئے ’’سر‘‘ اٹھا کے جینے کاایک ہی طریقہ تھا کہ وہ کسی کا ’’سرتاج‘‘ بن جائے۔ اُس کے آگے’’ سر‘‘ اُٹھا کر جیئے، بھلے اُس کے ’’سر‘‘ میںمستقل درد ہی ہوتارہے ، اپناسر، سربلند رکھے۔ پہلے ہمارے ہاں شادیاں جلد ہوجاتی تھیں اگرچہ خواتین کا تناسب معاشرے میں کم تھا۔ اب خواتین کی تعداد بحیثیت مجموعی مردوں سے زیادہ ہے مگر شادی کرنے کی عمربھی بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں گنگاہمیشہ اُلٹی بہتی ہے جبکہ راوی سیدھابہتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی راوی سچی بات لکھ بیٹھا ، اُس کو فی الفور بہا دیا گیا ۔ اس معاملے میںہمارے حکمرانوں نے کبھی کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ بھلے باقی معاملات میں اُن میں کتنا ہی اختلاف تھا، یہ ہمارے جلیل القدر حکمرانوں کی مشترکہ روایات رہی ہے۔ہم ہمیشہ سے اُس راوی کو برداشت کرتے آئے ہیں جس کی گردن پر دروغ کاتاج ہو۔سچا راوی کہیں نہ کہیں بہا دیاجاتا رہاہے اگرچہ لاہورکاراوی خشک ہی کیوں نہ ہوگیاہودیگردریااورانہاربھی تودنیا میں موجود ہیں۔اب حالات ماضی سے کافی مختلف ہیں۔ بھلے لوگ گھرسے باہرسربلند ہوں’’سرتاج‘‘ کا ’’سر‘‘اپنے گھر میںبھی جھکا ہی رہتا ہے۔ اس معاملے میں محمودو ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔بلکہ آج کل تو ’’سرتاج ‘‘ کا’’ سر‘‘ ہرجگہ جھکا ہی رہتا ہے ۔ اب اگر کوئی عورت اپنے شوہر کو’’ سرتاج‘‘ کہے تو لگتا ہے کہ مذاق کررہی ہے، اکثر خواتین مذاق نہیں کرتیںاور شوہر ہی کہتی ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ جب خواتین شوہر کہہ رہی ہوتیں ہیں تو اُن کامطلب ’’پھوہڑ ‘‘ہوتا ہے ۔کسی زمانے میں’’ سر‘‘ہونااپنی جگہ ایک تاج تھاجس کے’’ سر‘‘پریہ تاج سج جاتاتھاوہ پھولے نہیں سماتاتھاپوری دنیا کو بتاتا تھا کہ وہ ’’سر‘‘ بن گیا ہے ۔اب مگرنہ کوئی ’’سر ‘‘کی عزت رہ گئی ہے اور نہ ’’سرتاج ‘‘کی ۔اس میں زیادہ قصور’’سر‘‘ اور ’’سرتاج‘‘کااپناہے یاکسی اور کا ۔ اس بابت اپنی اپنی رائے ہوسکتی ہے ۔
اساتذہ کی کثیرتعدادآج بھی ہمارے معاشرے میںرول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے مگر عجیب کردار کے مالک چند لوگ بھی اساتذہ کی صفوں میں شامل ہوچکے ہیں۔پہلے جو’’سر‘‘ہوتے تھے وہ اپنی شاگرد کے’’ سر‘‘ہونے کاسوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔اپنے مقام سے گرنااُن کیلئے موت سے زیادہ اذیت ناک تھا۔ وہ شاگرد کو اولاد سمجھتے تھے اورساری دنیا یہ بات جانتی تھی ۔ہمارے اخلاقی انحطاط کی اس سے بدترین مثال نہیں ہوسکتی کہ آئے دن ’’سر‘‘ کے ہاتھوںکوئی شاگرداپنی عزت سے جاتی ہے ۔جس نے آخرت سنوارنی تھی وہ دنیا بھی تباہ کردیتا ہے ۔کچھ لوگ مگرقدرے معقول ہوتے ہیں اور وہ’’ سر‘‘ سے’’ سرتاج‘‘ بنناچاہتے ہیں۔اس میں کوئی ہرج نہیں اگر یہ معاملہ باہمی ہو ،بعض اوقات اپنی اور شاگرد کی عمر کافائدہ اٹھاتے ہوئے لوگ چالاکی سے ’’سر‘‘ کی بجائے ’’ سرتاج‘‘ تو بن جاتے ہیں مگر پھرعمر بھروہ نہ ’’سر‘‘ رہتے ہیں نہ’’ سرتاج‘‘۔ ہمارے قدیم معاشرے میں ’’سر‘‘کو ہمیشہ باپ سمجھاجاتا تھا۔ اب حالات اورجذبات کافی جدید ہوچکے ہیں آج کل کئی ’’ سر‘‘باپ بننا چاہتے ہیں اپنی شاگرد کا نہیں اُس کی اولاد کا۔ اکثر اوقات وہ کامیاب بھی ہوجاتے ہیںاگرچہ کامیابی کی وجوہات بیان کی جائیں تودل بھی روتا ہے اورآنکھ بھی بندہونے کوآتی ہے ۔عجیب اتفاق ہے کہ اس معاملے میں دینی اور دنیاوی معلم اتفاق کرچکے ہیں۔ آئے دن کسی نہ کسی کے ’’سر‘‘کے اپنی شاگرد کے ’’سر‘‘ہوکراُس کو’’عقد ‘‘میں لانے کی خبریں پڑھنے کوملتی ہیں۔چنداساتذہ ایسے نہیں ہیں۔ایک صاحب جو یونیورسٹی میں ’’سر‘‘ ہیں ،کہتے ہیں کہ بہت ساری سٹوڈنٹ ’’سر‘‘ کہیں تو بندہ اللہ پاک کاشکر ادا کرتا ہے کہ ان کا’’ سر‘‘ ہے ’’سرتاج ‘‘نہیں،مگرایک آدھ سٹوڈنٹ ایسی بھی ہوتی ہے جوفون پر بھی ’’ سر‘‘ کہے تو دل’’ سرتاج‘‘ سنتا ہے اوراس خوش فہمی میں -:
وہ سر کہتی رہی میں سرتاج سمجھتا رہا
اور یوں دونوں کا کام چلتا رہا
میں نے انہیں کہا کہ آپ دونوں کے ساتھ اس سارے معاملے میں نفسیاتی ڈاکٹر کاکام بھی چل سکتا ہے۔
بعض اوقات دو دلوںمیں مکمل ہم آہنگی ہوتی ہے اورایک دوسرے کوسر کا تاج سمجھتے ہیںاورایک دوسرے کو’’سرتاج ‘‘بنانے چاہتا ہے ۔ اُن کے راستے میں بہت سارے لوگوں کے سر اور تاج حائل ہوجاتے ہیں ۔اُن کی خوشیاں کسی کے زر اور کسی کے تکبر کے تاج کی نذر ہوجاتی ہیں۔ اُن کی ساری زندگی یہی کہتے گزر جاتی ہے کہ جسم وجان خالق کائنات کی عطا سہی مگراس کائنات میں جینے کیلئے انسان کو اپنا ہنر آزماناپڑتا ہے۔بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ’’ سرتاج‘‘ بننا بچوں کا کھیل ہے ۔عقل مند مگریہ جانتے ہیں ’’ ہنوزدلی دوراست‘‘ ۔ بعض اوقات بہت سے لوگ ’’سرتاج‘‘ کہلوانے کی حسرت لیئے دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور لوگ ان کو تاجی یا تاجا کہہ کر یادکرتے ہیں۔ قدرت اللہ شہاب ایک سرکاری بلڈنگ کے معائنے پر گئے ۔ کاغذات میں بلڈنگ کی دو منازل تھیں مگر موقع پر صرف ایک موجودتھی ۔چوکیدار نے پوچھنے پر بتایا کہ دوسری منزل فلڈ میںبہہ گئی ۔شہاب صاحب نے کہا کہ فلڈ میں پہلی منزل نہیں بہہ سکی تو دوسری کیسے بہہ گئی ہے چوکیدار نے مدلل جواب دیا ، یہ تو قدرت کے کام ہیں اورقدرت کے کاموں میں انسان کیادخل دے سکتا ہے ۔شہاب صاحب شہاب بعد میں تھے اورقدرت اللہ پہلے تھے اس لیئے اللہ کی قدرت کے احترام میں چپ رہے ۔ بہت سے لوگوں کا سرتاج بننا بھی اللہ کی قدرت کی ایک روشن مثال ہے۔ہمارے معاشرے میں اگر کوئی حسینہ اپنی مرضی سے کسی کو ’’سرتاج‘‘ بنا لے تو18 سال کے لڑکے سے لے کر81سال تک کے بزرگ پر غم و غصے کی ایک سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔
ہرکوئی ہروقت یہ دہائی دیتا رہتا ہے کہ اس ملک میں میرٹ نہیں ہے اورادھر کا سسٹم ٹھیک نہیں ہے ۔ اس سسٹم کودہائی دیتے دیتے وہ اپنے بہت سارے ذاتی سسٹم تباہ کربیٹھتا ہے۔اگر کسی خاتون کی شکل و صورت بہتر ہو توبہت سے لوگ سرجوڑ کربیٹھ جاتے ہیں کہ اس کاسرتاج کیسے بناجاسکتا ہے ۔کسی کے سر پر کوئی اور تاج ہونہ ہو، وہ’’ سرتاج‘‘ بننے کیلئے سردھڑ کی بازی لگانے کو تیار ہوتا ہے اورعموماً خوار ہوتا ہے ۔ایک خوبصورت خاتون کے شوہر کے جنازے میںایک شخص قبرستان کھڑا، بار بارخاتون سے پوچھ رہا تھا کیا میں آپ کے میاں کی جگہ لے سکتا ہوں؟ جواب ملامجھے تو ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں، آپ گورکن سے بات کرلیں۔کچھ لوگ دنیا کی نظر میں ’’سرتاج‘‘ ہوتے ہیں مگر اس سے فرق تو پڑتا نہیںکوئی۔ وہ صرف پیدائشی اور کاغذی’’ سرتاج‘‘ ہوتے ہیںکیونکہ ان کے والدین نے اُن کانام ’’سرتاج‘‘ رکھ دیاہوتاہے ۔جیسے کاغذ کے پھولوں سے خوشبوآنہیں سکتی، یہ ’’سرتاج‘‘ حقیقی ’’سرتاج‘‘ بننے کی حسرت لیئے ہی دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ایک شاعر نے کہا تھاکہ’’آدمی کوبھی میسر نہیں انسان ہونا‘‘ ایسے ہی ’’سرتاج‘‘ ، ’’سرتاج‘‘کہلانے سے کوئی ’’سرتاج ‘‘نہیں بن جاتا۔کچھ ’’سرتاج‘‘ عزیز ہوتے ہیں تو کچھ عزیز’’سرتاج‘‘ بن جاتے ہیں۔کچھ ’’سرتاج‘‘ بدلحاظ ہوتے ہیں تو کچھ لاعلاج۔ بعض اوقات اس کی واحدوجہ ’’سرتاج‘‘ ہوناہے۔اکثر لوگ ’’سرتاج‘‘ بننے سے پہلے بڑے معقول لگتے ہیںمگر ’’سرتاج‘‘ بننے کے بعد نرے فضول ثات ہوتے ہیں۔اکثر خواتین یہ شکایت کرتی ہیں یہ دنیا پہلے تختوں تاجوںکی تھی اور اب’’ سرتاجوں‘‘ کی ہے ۔صنف نازک کے حالات یہاں ہمیشہ نازک ہی رہے ہیں۔دوسری جانب مردحضرات کہتے ہیں ’’مرد اور درد‘‘ ایک ہی چیز کے دونام ہیں۔ مردہرعورت کادردمحسوس کرتاہے مگر عورت مرد کوصرف درد دیتی ہے اوربدلے میں سارا کچھ لے لیتی ہے۔آپ بھی اپنی رائے سے ضرورآگاہ کیجئے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں