انسانی ،عناصر کے اعتدال کا نام ہے ۔خود نظام عالم اسی اعتدال پر قائم ہے ،جس میں اللہ تعالی کی قدرت تمام تکوینی امور میں توازن واعتدال سے مکمل کار فرما نظر آتی ہے قرآن حکیم نے اپنے خاص اسلوب میں مثالیں دے کر اور انداز بدل بدل کر اس جانب بار با رمتوجہ کیا ہے ۔ایک مقام پر توبہت واضح الفاظ میں فرمایا :تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے ۔پھر پلٹ کر دیکھو ۔کہیں تمہیں کو ئی خلل نظر آتا ہے ؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ ،تمہاری نگاہ تھک کر پلٹ آئے گی ۔اسلام یہی حکم عملی زندگی کی تمام تشر یعی ہدایات میں بھی عطا فرماتا ہے ۔اسلام اعتدال اورمیانہ روی کو زندگی کا حسن قرار دیتا ہے تاکہ انسانی اعمال اسی اعتدال سے مزین ہو کر معاشرے کی تعمیر اور آخرت کی کامیابی کے موجب بنیں ۔رسولﷺ نے اس حسنِ اعتدال کی وضاحت اپنے احوال اوراپنے افعال سے فرمائی ہے ۔
انسانی زندگی دوحوالوں سے عبارت ہے : ایک اس کا جسمانی وجود اور دوسری اس کی روحانی قوت ۔رسولﷺ نے انسان کی راہنمائی ان دونوں حوالوں سے فرمائی ہے اورحیات انسانی کے ان دونوں شعبوں میں ایسی تعلیمات عطا فرمائی ہیں ۔جن پر عمل پیرا ہوکر انسان اپنی روحانی تربیت بھی کر سکتا ہے اورجسمانی وبدنی تنظیم بھی ۔اس تربیت کے لیے حضورﷺ کی جانب سے ایسے آداب تلقین فرمائے گئے ہیں جو اُٹھتے بیٹھتے ،سونے جاگنے ،کمانے کھانے اوررہن سہن کے ہر پہلو سے تعلق مکمل احاطہ فرماتے ہیں ۔ان تعلیمات کا خلاصہ یہی ہے کہ جب انسان مزاج کے اعتبار سے اعتدال قائم ہو جاتا ہے ۔پھر نہ تو وہ رہبانیت کی طرف جھکاؤ رکھتا ہے ۔اور نہ خالص مادیت اس کی انسانی تگ ودوکا حاصل اور مقصد حیات ٹھہرتی ہے ۔اسی لیے قرآن حکیم روز محشر کفار کی پشیمانی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتا ہے ۔
کافر بار بار تمنا کریں گے ۔کہ کاش وہ بھی مسلمان ہوتے ۔ان کو اُن کے حال پر چھوڑ دیجیے کہ وہ (خوب )کھا لیں اور فائدہ اُٹھالیں اور خیالی منصوبے ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں ۔بہت جلد ان کو حقیقت معلوم ہو جائے گی ۔الحجر (3.2:15)
اسلام کی تعلیمات تو اس قدر واضح ہیں کہ اس مسئلے پر دنیا کا کوئی نظام اور مذہب ایسی دو ٹوک ہدایات اپنے دامن میں نہیں رکھتا ۔قرآن کریم میں ہے :جو کچھ اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر حاصل کر اور دنیا سے اپنا حصہ فراموش نہ کر ،اور احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا اور ملک میں فساد کا خواہاں نہ بن یقینا اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا ۔(القصص 77:28 )
آپﷺ نے حضرت جابرؓ کی ایک اور روایت میں فرمایا : اے لوگوں ! اللہ سے ڈرو اور طلب (رزق) میں اعتدال سے کام لو ۔کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک وہ اپنا رزق پورا پورا وصول نہ کر لے اور اگر کبھی رزق کے حصول میں دیر ہو جائے تو بھی اللہ سے ڈرو۔کوشش میں اعتدا ل سے کام لو ،جو رزق حلال ہو اسے لے لو اور جوحرام ہو اسے چھوڑ دو (ابن ماجہ ،ج 3رقم :2144)
یعنی طلب رزق حلال عبادت ہے ،مگر ضرورت کی حد تک اگر اسے مقصد حیات بنا لیا جائے اور زندہ رہنے کا واحد جواز کمانے اور ہرطرح میں تلاش کیا جائے تو یہ عمل انسان کو جادۂ اعتدال سے ہٹانے کا باعث بن سکتا ہے ۔اس لیے اسلام دونوں جانب سے اعتدال کی تلقین کرتا ہے ایک طرف وہ کہتا ہے رزق حلال کی کوشش میں لگنا اوراسکی تگ ودوکرنا یہ (نماز ،روزہ ،زکوٰۃ،حج جیسے ) فرائض کے بعد ایک فریضہ ہے ۔(طبرانی ،ج10ص 74)
اسراف کی وضاحت کے حوالے سے ایک نہایت اہم روایت ذخیرہ حدیث میں ہمیں اور ملتی ہے عمروبن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیںکہ ایک شخص رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :میں محتاج ہوں ،میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے اورمیں ایک یتیم کا سر پرست ہوں ‘‘ آپ نے فرمایا :جس کا ترجمہ ہے ۔اپنے یتیم کے مال میں سے کھا ،اسراف اور فضول خرچی اور اس کے مال سے پونجی بنائے بغیر ۔
یہاں سبق آموز بات یہ ہے کہ یتیم کی کفالت جہاں اسلام میں ایک نہایت اہم فریضہ اور باعث اجر کام ہے ،وہیں اس سلسلے میں بھی فضول خرچی ،یعنی اسراف سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے گویا ۔اعتدال اور توازن کا دامن ہر صورت میں تھامنا ضروری ہے ۔
سادگی اور معاشرتی وحدت
آپؐ کی ذات بابرکات نے اس سلسلے میں بھی اپنی امت کے لیے بہترین نمونہ عمل چھوڑا ہے آپؐ نے ہمیشہ سادہ زندگی بسرکی اور فقرہ وفاقے کی حالت میں نہایت صبروشکر سے اپنے فرائض منصبی ادا کیے ،باوجود اس کے کہ آپؐ کوتمام سہولتیں میسر آسکتی تھی ۔یوں آپؐ کا فقراختیاری تھا ۔ آپؐ نے معاشرتی اُونچ نیچ ختم کرنے پر بھی زور دیا ہے اور مساوات واعتدال کا درس دیا ہے ۔جاہ ومال کی غیر ضروری نمائش کا واحد مقصد اپنی برتری کا اظہار ہوتاہے ۔اس قسم کی منفی سوچ معاشرے کی وحدت اوراجتماعیت کو ختم کرکے اتحاد واتفاق پر مبنی معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے اس لیے آپؐ نے آرایش پر توپابندی عائد نہیں کی ،لیکن نمائش کو قطعاً ممنوع قرار دیا ہے تاکہ معاشرتی وقار نمائش پسندوں کا شکار نہ ہو سکے ۔چنانچہ عبادت وریاضت ،کھانے پینے ،سونے جاگنے ،اٹھنے بیٹھنے ،ملنے جلنے اور رہنے سہنے سے لے کر لباس ومکان تک ہر مقام پر آپؐ کے ارشادات اعتدال کا درس دیتے نظر آتے ہیں اگر ہر معاملے میں اعتدال ومیانہ روی کو اختیار کر لیا جائے تو معاشرتی وحدت اورمساوات خود بہ خود قائم ہو سکتی ہے ۔
دوسری جانب آپؐ نے مال دار افراد کو تلقین کی :’’ اگر کوئی شخص خوش حال ہے تو کیا حرج ہے کہ اگروہ کام کاج کے دو کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کے لیے بھی دو کپڑے رکھے ۔‘‘(ابوداؤد ،ج4رقم 1078)
اسی طرح ایک شخص کو میلے لباس میں دیکھا تو فرمایا کہ اس سے اتنا نہیں ہوتا کہ کپڑے دھو لیا کرے ۔(ابوداؤد ج4، 4062)
ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔اس کے بدن پر پھٹا پرانالباس تھا ۔آپؐ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس مال ہے ؟ اس نے کہا :جی ہاں ۔آپؐ نے فرمایا :کس قسم کا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ اللہ نے مجھے ہر قسم کے مال سے نواز رکھا ہے آپؐ نے فرمایا ’’جب اللہ نے تجھے مال دے رکھا ہے تو اللہ کی نعمت اور سخاوت کا اثر بھی ظاہر کر ‘‘ (ابو داؤ،ج4رقم 4063)
تاہم ،اسلام نے خوش پوشا کی حد سے گزر کر اسراف کی حدود میں داخل ہو جانے والی آرائش کی سختی سے ممانعت کی ہے جو دراصل نمائش اوردکھلاوے کی خاطر کی جاتی ہے ۔کیونکہ یہ راہ اعتدال سے ہٹ کر ہے ۔آپؐ کا ارشاد ہے ۔’’ جس نے دنیا میں شہرت کا لباس زیب تن کیا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا اور اس میں آگ بھڑکائے گا ‘‘
اس پوری بحث کو ایک حدیث میں یوں مختصراً بیان کیا گیا ہے ۔آپؐ نے فرمایا ۔’’میری امت میں ایسے لوگ آئیں گے ۔جو رنگ برنگ کے کھانے کھائیں گے ۔انواع و اقسا م کے مشروبات استعمال کریں گے اور طرح طرح کے لباس زیب تن کریں گے ۔اورمنہ پھاڑ پھاڑ کر بدترین افراد ہوں گے ‘‘ (المعجم الکبیر ،ج1،ص 107)
خود آپؐ نے عملی طور پر اسلامی حکومت کے قیام کے بعد مساوات کا وہ عظیم الشان نمونہ پیش فرمایا کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے آج بھی قاصر ہے آپؐ کے اور صحابہ کرامؓ کے مابین لباس کے اعتبار سے بھی کوئی فرق نہ تھا ۔اسی طرح آپؐکی نشست بھی ایسی عام اورکسی امتیاز کے بغیر ہوتی تھی کہ باہر سے آنے والے شخص کو آپؐ کے بارے میں پوچھنا پڑتا تھا ۔
اعتدال اور توازن کا حکم صرف کھانے پینے ،کمانے اور معاشرتی امور تک محدود نہیں ہے یہ حکم انسانی زندگی کے ہر ہر پہلوسے تعلق رکھتا ہے چنانچہ دین کے معاملے میں بھی غلو سے بچنے کا حکم براہ راست قرآن کریم میں دیا گیا اوریہاں غلو سے مراد بھی حد سے بڑھنا ہے ۔دین کے معاملے میں غلو حدود سے تجاوز کرنا سخت ناپسندیدہ ہے ۔قرآن کریم میں فرمایا گیا۔’’تم اپنے دین کے معاملے میں غلو نہ کرو‘‘ (النساء 171:4)
یہ حقیقت ہے اور اسی کے ذریعے ہماری دنیاوی زندگی کامیابی سے بسر ہو سکتی ہے جس پر ہماری اخروی دائمی زندگی کا مدار اور انحصار ہے اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور اس پرعمل کی توفیق ارزانی فرمایئے ۔آمین
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں