تحریر: مہر محمد حسنین ہراج
راج توجائے پررواج نہ جائے یہ وہ مقولہ ہے جسے قدیم ہندوستان میں بعض قبائل اور راجاؤں کی طرف سے ہمیشہ اہمیت دی جاتی تھی یعنی راج جاتاہے توجائے پررواج کونہ چھوڑاجائے، اسی طرح افغانستان میں بھی یہ مقولہ تب اہمیت اختیارگیاجب نائن الیون واقعہ کے بعدامریکہ سمیت یورپی یونین نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کامطالبہ کردیامگرآج اس دورمیں ہم نے اپنی آنکھوں سے اس مقولہ کی اہمیت کواجاگر ہوتا دیکھاجب طالبان نے راج کوتوچلتاکیامگرمہمان کواس کے دشمن کے حوالے نہ کرنے کے اپنے رواج کونہ بدلا افغانستان میں پناہ لینے والے مہمان کو بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔ نائن الیون واقعہ نے جہاں امریکہ اوریورپی برادری کوغمزدہ کردیا، وہیں پوری دنیاکوجھنجوڑکررکھ دیا ۔ واقعہ کی امریکی تحقیقات میں طالبان اوربالخصوص اسامہ بن لادن اوراسکے عسکری ونگ کوہی ذمہ دار ٹھہرایاگیا۔ان دنوں اسامہ بن لادن افغانستان میں بطورمہمان پناہ لے چکاتھااسامہ بن لادن کی حوالگی کے مطالبے کوطالبان نے جوتی کی نوک پررکھتے ہوئے امریکہ کوصاف انکارکردیانتیجے کے طورپریورپی یونین سمیت امریکہ نے طالبان کے اس انکارکوہٹ دھرمی سمجھتے ہوئے آغازجنگ کاطبل بجادیا۔افغانستان میں ایک خوفناک اورخونریزلڑائی چھڑگئی ،طالبان نے اپنی حکومت کے خاتمے کوبرداشت کرلیامگراسامہ بن لادن جیسے مہمان کوامریکہ کے حوالے نہ کیا آج21سال بعدمذاکراتی بیٹھک کے ذریعے ایک طویل جنگ کے خاتمے پرجب افغانستان سے امریکی انخلاء شروع ہوا توکچھ علاقے جن میں نیٹوفورسزکامیاب نہ ہوسکیں وہ طالبان کے زیرکنٹرول ہی رہے ان علاقوں میں رہ کرطالبان نے آنے والے وقتوں میں کامیابی کے حصول کیلئے بھرپورتیاری جاری رکھی اورخفیہ پلاننگ کے ذریعے اپنی قوت میں اضافہ کرتے رہے ۔امریکی انخلاء کے محض چند دنوں بعدطالبان فورسزکاپورے افغانستان کنٹرول حاصل کرنااورکابل پرجھنڈالہرادینانہ صرف اچنبھے کی بات ہے بلکہ پوری دنیاکوورطہ حیرت میں ڈال دیاہے۔پھراس سے بڑھ کرجوحیرانگی کی بات ہے وہ یہ ہے کہ بغیرکسی بڑی خونی جھڑپ کے طالبان کااتنے وسیع علاقہ پرقبضہ جمالینااسے طالبان کی 21سال کی بہترین منصوبہ بندی قراردیاجائے یایہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات مستقبل میں آشکارہونگے۔طالبان کی پے درپے فتوحات پرآج امریکہ سمیت پوری دنیانہ صرف حیران وپریشان ہے بلکہ اکثرممالک تو اسے عالمی امن کیلئے خطرہ قراردے رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن کاحالیہ بیان کہ ہمیں یہ توقع نہ تھی کہ طالبان اتنی جلدی کامیاب ہوجائیں گے اس کامطلب ہواطالبان کی جنگی تیاری کے متعلق امریکن انٹیلی جنس بالکل ناکام رہی اورافغانستان میں جن فورسزکی جنگی تربیت وتیاری پراربوں ڈالرزخرچ ہوئے وہ فورسز ریت کی دیواریں ثابت ہوئیں۔اوریہ اس بات کاثبوت ہے کہ امریکی تھنک ٹینکس نے دونوں اطراف کے اندازے غلط لگائے۔افغانستان پرطالبان کے دوبارہ قبضہ کرنے کیوجہ سے امریکہ میں اک نئی بحث چھڑگئی ہے صدرجوبائیڈن نے بیان دیاہے کہ میں پانچویں امریکی صدرکو افغان وارکانقشہ نہیں دکھاناچاہتایہ بات بھی کچھ حلقوں کی جانب سے کہی جارہی ہے اگرافغانستان کوپھرطالبان کے حوالے کرناتھاتوجن امریکیوں کی وہاں پراموات واقع ہوئیں ان کاجوابدہ کون ہوگا؟بہرحال یہ توامریکہ کااندرونی معاملہ ہے چلتے ہیں پھرافغانستان کی طرف اس مرتبہ جونئی بات دیکھنے کومل رہی ہے کہ 90کی دہائی والے طالبان کیساتھ موجودہ طالبان کاموازنہ کیاجائے تویہ طالبان ان سے نہ صرف مختلف ہیں بلکہ اپنے رویوں میں نرمی ظاہرکرتے ہوئے ایک دیرپاامن کے بھی خواہشمند ہیں اورقتل وغارت گری سے بالکل اجتناب کررہے ہیں حالانکہ ستمبر1996کے آخرمیں چارسالہ خانہ جنگی کے بعدجب طالبان نے کابل پرقبضہ کیا تھاتو اسوقت کے افغان صدرنجیب اللہ کوگرفتارکرنے کے بعدتشددکے ساتھ قتل کردیاگیااوراس کی لاش ٹریفک پوسٹ پرلٹکادی گئی۔ اس مرتبہ بھی افغان صدراشرف عنی کوگرفتارکیاجاسکتاتھامگرطالبان نے اسے بھاگنے کاپوراپوراموقع فراہم کیا۔جن اعلیٰ حکومتی عہدیداران کوگرفتاکیاانہیںمعافی مل چکی ہے جن فورسزنے سرنڈرکیاانہیں کوئی سزانہ دی گئی غرضیکہ پورے افغانستان میں عام معافی کااعلان کردیاگیاہے۔اقلیتوں کومکمل مذہبی آزادی دی گئی ہے سابقہ حکومت کے کئی افسروں کوبھی ان کے عہدوں پربحال رکھا جارہا ہے۔اسی طرح طالبان عورتوں کیلئے بھی نرم گوشہ اختیارکئے ہوئے ہیں حالانکہ طالبان کے سابقہ دورحکومت میں انہیں ان لوگوں سے نفرت تھی جوخواتین کے حقوق کی بات کرتے تھے ان کاکہناتھاعورت کیلئے صرف دوہی جگہیں ہیں ایک ان کاگھراوردوسری قبرمگراس مرتبہ توعورتوں کوبھی معمولات زندگی اوردفتری اوقات میں ڈیوٹی سرانجام دینے کی اجازت مل چکی ہے۔دوسری طرف خطے کی عسکری صورت حال کاجائزہ لیاجائے توانڈیاکے اندرصف ماتم بچھ چکاہے۔چونکہ افغانستان میں امن کاقیام پاکستان کیلئے خوش آئندعمل ہے۔جوانڈیاکوکسی بھی صورت گوارہ نہیں ۔ طالبان خطے کی عسکری اورسیاسی صورت حال پراثراندازتوہورہے ہیں مگردیکھنایہ ہے کہ مستقبل میں ان کی پالیسیوں سے عالمی برادری کا بھی اتفاق ہوتاہے یانہیں؟ لیکن اس مرتبہ طالبان کولازمی طورپردنیاکے بدلتے حالات سے ہرصورت سمجھوتاکرنا ہوگا تاکہ دنیامیں انہیں ایک امن پسندقوم کے طورپرجاناجاسکے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں